صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ صَدَقَةِ الْحُبُوبِ وَالثِّمَارِ
اناج اور پھلوں کی زکوٰۃ کے ابواب کا مجموعہ
1608. ‏(‏53‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الْبَيَانِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَادَ بِالنَّجْدَةِ وَالرِّسْلِ- فِي هَذَا الْمَوْضِعِ- الْعُسْرَ وَالْيُسْرَ،
اس بات کا بیان کہ اس حدیث میں مذکورہ الفاظ «‏‏‏‏النَّجْدَۃِ» ‏‏‏‏ اور «‏‏‏‏الرِّسْلِ» ‏‏‏‏ سے مرادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تنگدستی اور خوشحالی ہے
حدیث نمبر: Q2322
Save to word اعراب
واراد بقوله من نجدتها ورسلها اي‏:‏ وفي نجدتها ورسلها وَأَرَادَ بِقَوْلِهِ مِنْ نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا أَيْ‏:‏ وَفِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا
اور آپ کے اس فرمان «‏‏‏‏مِنْ نَجْدَتِھَا وَرِسْلِھَا» ‏‏‏‏ سے آپ کی مراد «‏‏‏‏فِیْ نَجْدَتِھَا وَرِسْلِھَا» ‏‏‏‏ یعنی تنگدستی اور خوشحالی میں ہے

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 2322
Save to word اعراب
حدثنا عبيدة بن عبد الله الخزاعي ، اخبرنا يزيد بن هارون ، اخبرنا شعبة ، عن قتادة ، عن ابي عمر الغداني ، انه مر عليه رجل من بني عامر، فقيل: هذا من اكثر الناس مالا، فدعاه ابو هريرة، فساله عن ذلك، فقال: نعم، لي مائة حمر او لي مائة ادم، ولي كذا وكذا من الغنم، فقال ابو هريرة : إياك وإخفاف الإبل، وإياك وإظلاف الغنم، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " ما من رجل يكون له إبل لا يؤدي حقها في نجدتها ورسلها، عسرها ويسرها، إلا برز لها بقاع قرقر، فجاءته كافذ ما يكون واشده، ما اسمنه او اعظمه شك شعبة، فتطؤه باخفافها , كلما جازت عليه اخراها اعيدت عليه اولاها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة حتى يقضى بين الناس، فيرى سبيله، وما من عبد يكون له غنم، لا يؤدي حقها في نجدتها ورسلها، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ونجدتها ورسلها، عسرها ويسرها، إلا برز لها بقاع قرقر كافذ ما يكون واشده واسمنه واعظمه شك شعبة، فتطؤه باظلافها، وتنطحه بقرونها كلما جازت عليه اخراها اعيدت عليه اولاها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، حتى يقضي الله بين الناس فيرى سبيله، وما من رجل له بقر لا يؤدي حقها في نجدتها ورسلها، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ونجدتها ورسلها، عسرها ويسرها، إلا برز له بقاع قرقر كافذ ما يكون، واشده واسمنه او اعظمه شك شعبة، فتطؤه باظلافها، وتنطحه بقرونها كلما جازت عليه اخراها اعيدت عليه اولاها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة، حتى يقضى بين الناس، فيرى سبيله" ، فقال له العامري: وما حق الإبل يا ابا هريرة؟ قال: تعطي الكريمة، وتمنح العزيزة، وتفقر الظهر، وتطرق الفحل، وتسقي اللبن، قال ابو بكر: لم يرو هذا الحديث غير يزيد بن هارون، عن شعبةحَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي عُمَرَ الْغُدَانِيِّ ، أَنَّهُ مَرَّ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَامِرٍ، فَقِيلَ: هَذَا مِنْ أَكْثَرِ النَّاسِ مَالا، فَدَعَاهُ أَبُو هُرَيْرَةَ، فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكِ، فَقَالَ: نَعَمْ، لِي مِائَةُ حُمُرٍ أَوْ لِي مِائَةُ أَدَمٍ، وَلِي كَذَا وَكَذَا مِنَ الْغَنَمِ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : إِيَّاكَ وَإِخْفَافَ الإِبِلِ، وَإِيَّاكَ وَإِظْلافَ الْغَنَمِ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " مَا مِنْ رَجُلٍ يَكُونُ لَهُ إِبِلٌ لا يُؤَدِّي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا، عُسْرِهَا وَيُسْرِهَا، إِلا بَرَزَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، فَجَاءَتْهُ كَأَفَذِّ مَا يَكُونُ وَأَشَدُّهُ، مَا أَسْمَنَهُ أَوْ أَعْظَمَهُ شَكَّ شُعْبَةُ، فَتَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا , كُلَّمَا جَازَتْ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ، وَمَا مِنْ عَبْدٍ يَكُونُ لَهُ غَنَمٌ، لا يُؤَدِّي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَنَجْدَتُهَا وَرِسْلُهَا، عُسْرُهَا وَيُسْرُهَا، إِلا بَرَزَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ كَأَفَذِّ مَا يَكُونُ وَأَشَدُّهُ وَأَسْمَنَهُ وَأَعْظَمَهُ شَكَّ شُعْبَةُ، فَتَطَؤُهُ بِأَظْلافِهَا، وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا كُلَّمَا جَازَتْ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ بَيْنَ النَّاسِ فَيَرَى سَبِيلَهُ، وَمَا مِنْ رَجُلٍ لَهُ بَقَرٌ لا يُؤَدِّي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَنَجْدَتُهَا وَرِسْلُهَا، عُسْرُهَا وَيُسْرُهَا، إِلا بَرَزَ لَهُ بِقَاعٍ قَرْقَرٍ كَأَفَذِّ مَا يَكُونُ، وَأَشَدُّهُ وَأَسْمَنَهُ أَوْ أَعْظَمَهُ شَكَّ شُعْبَةُ، فَتَطَؤُهُ بِأَظْلافِهَا، وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا كُلَّمَا جَازَتْ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ" ، فَقَالَ لَهُ الْعَامِرِيُّ: وَمَا حَقُّ الإِبِلِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قَالَ: تُعْطِي الْكَرِيمَةَ، وَتَمْنَحُ الْعَزِيزَةَ، وَتُفْقِرُ الظُّهْرَ، وَتُطْرِقُ الْفَحْلَ، وَتَسْقِي اللَّبَنَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ يَزِيدَ بْنِ هَارُونَ، عَنْ شُعْبَةَ
جناب ابوعمرالغدانی رحمه الله سے روایت ہے کہ بنی عامر کا ایک شخص ان کے پاس سے گزرا تو کہا گیا کہ یہ سب سے زیادہ مالدارشخص ہے تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اُسے بلایا اور اُس سے اُس کے بارے میں پوچھا تو اُس شخص نے جواب دیا کہ جی ہاں، میرے پاس سو بہترین سرخ اونٹ ہیں یا میرے پاس سو خاکستری اونٹ ہیں اور میرے پاس اتنی اتنی بکریاں ہیں۔ اس پر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خبردار، اونٹوں کے پاؤں اور بکریوں کے کھروں (تلے روندیں جانے) سے بچنا۔ بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص کے پاس اونٹ ہوں اور وہ تنگی اور خوشحالی میں ان کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو انہیں ایک چٹیل میدان میں لایا جائیگا۔ وہ خوب موٹے تازہ اور فربہ ہوکر آئیںگے اور اس شخص کو اپنے قدموں تلے روندیںگے۔ جب بھی آخری اونٹ گزرجائیگا تو پہلا اونٹ اُس پر واپس آئیگا۔ (یہ عذاب مسلسل) پچاس ہزار سال والے دن میں ہوتا رہیگا حتّیٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو جائیگا تو یہ شخص بھی اپنا راستہ دیکھ لیگا۔ اور جس شخص کے پاس بکریاں ہوں اور خوشحالی میں ان کی زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا (تنگی اور خوشحالی میں) تو انہیں ایک ہموار میدان میں جمع کیا جائیگا وہ بہت زیادہ فربہ حالت میں آئیںگی تو اس شخص کو اپنے کھروں کے ساتھ روندیںگی اور سینگوں کے ساتھ ٹکریں ماریںگی۔ جب بھی آخری بکری گزرجائیگی تو پہلی بکری اس پر لوٹ آئیگی۔ (اسے یہ عذاب مسلسل ہوتا رہیگا) اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے حتّیٰ کہ لوگوں کے درمیاں فیصلہ کردیا جائے تو یہ شخص بھی اپنا راستہ (جنّت یا جہنّم کر طرف) دیکھ لیگا۔ اور جو شخص بھی گائیوں کا مالک ہو اور وہ تنگی اور خوشحالی میں ان کی زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا اس سے مراد تنگی اور خوشحالی ہے، تو انہیں ایک بالکل ہموار میدان میں جمع کیا جائیگا وہ خوب موٹی تازی، چاک چوبند اور فربہ حالت میں آئیںگی تو اسے اپنے قدموں تلے روندیںگی اور اسے اپنے سینگوں سے ٹکریں ماریںگی۔ جب بھی آخری گائے گزر جائیگی تو پہلی گائے اس پر لوٹ آئیگی۔ ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی۔ یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائیگا تو یہ شخص اپناراستہ (جنّت یا جہنّم) کی طرف دیکھ لیگا۔ تو بنی عامر کے شخص نے عرض کی کہ اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، اونٹوں کا حق کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ تو اپنی بہترین اونٹنی دیدے اور اپنی دودھ والی اونٹنی دودھ پینے کے لئے دیدے اور کسی (ضرورت مند کو) سواری کے لئے اونٹ دیدے، جفتی کے لئے نر اونٹ دیدے اور (غرباء کو) دودھ پلادے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام شعبہ سے صرف یزید بن ہارون ہی بیان کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.