1608. اس بات کا بیان کہ اس حدیث میں مذکورہ الفاظ «النَّجْدَۃِ» اور «الرِّسْلِ» سے مرادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تنگدستی اور خوشحالی ہے
جناب ابوعمرالغدانی رحمه الله سے روایت ہے کہ بنی عامر کا ایک شخص ان کے پاس سے گزرا تو کہا گیا کہ یہ سب سے زیادہ مالدارشخص ہے تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اُسے بلایا اور اُس سے اُس کے بارے میں پوچھا تو اُس شخص نے جواب دیا کہ جی ہاں، میرے پاس سو بہترین سرخ اونٹ ہیں یا میرے پاس سو خاکستری اونٹ ہیں اور میرے پاس اتنی اتنی بکریاں ہیں۔ اس پر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خبردار، اونٹوں کے پاؤں اور بکریوں کے کھروں (تلے روندیں جانے) سے بچنا۔ بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص کے پاس اونٹ ہوں اور وہ تنگی اور خوشحالی میں ان کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو انہیں ایک چٹیل میدان میں لایا جائیگا۔ وہ خوب موٹے تازہ اور فربہ ہوکر آئیںگے اور اس شخص کو اپنے قدموں تلے روندیںگے۔ جب بھی آخری اونٹ گزرجائیگا تو پہلا اونٹ اُس پر واپس آئیگا۔ (یہ عذاب مسلسل) پچاس ہزار سال والے دن میں ہوتا رہیگا حتّیٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو جائیگا تو یہ شخص بھی اپنا راستہ دیکھ لیگا۔ اور جس شخص کے پاس بکریاں ہوں اور خوشحالی میں ان کی زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا“(تنگی اور خوشحالی میں) تو انہیں ایک ہموار میدان میں جمع کیا جائیگا وہ بہت زیادہ فربہ حالت میں آئیںگی تو اس شخص کو اپنے کھروں کے ساتھ روندیںگی اور سینگوں کے ساتھ ٹکریں ماریںگی۔ جب بھی آخری بکری گزرجائیگی تو پہلی بکری اس پر لوٹ آئیگی۔ (اسے یہ عذاب مسلسل ہوتا رہیگا) اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے حتّیٰ کہ لوگوں کے درمیاں فیصلہ کردیا جائے تو یہ شخص بھی اپنا راستہ (جنّت یا جہنّم کر طرف) دیکھ لیگا۔ اور جو شخص بھی گائیوں کا مالک ہو اور وہ تنگی اور خوشحالی میں ان کی زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا“ اس سے مراد تنگی اور خوشحالی ہے، تو انہیں ایک بالکل ہموار میدان میں جمع کیا جائیگا وہ خوب موٹی تازی، چاک چوبند اور فربہ حالت میں آئیںگی تو اسے اپنے قدموں تلے روندیںگی اور اسے اپنے سینگوں سے ٹکریں ماریںگی۔ جب بھی آخری گائے گزر جائیگی تو پہلی گائے اس پر لوٹ آئیگی۔ ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی۔ یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائیگا تو یہ شخص اپناراستہ (جنّت یا جہنّم) کی طرف دیکھ لیگا۔“ تو بنی عامر کے شخص نے عرض کی کہ اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، اونٹوں کا حق کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ تو اپنی بہترین اونٹنی دیدے اور اپنی دودھ والی اونٹنی دودھ پینے کے لئے دیدے اور کسی (ضرورت مند کو) سواری کے لئے اونٹ دیدے، جفتی کے لئے نر اونٹ دیدے اور (غرباء کو) دودھ پلادے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام شعبہ سے صرف یزید بن ہارون ہی بیان کرتے ہیں۔