او الخلية او البرية او ما عني به الطلاق، فهو على نيته، وقول الله عز وجل: وسرحوهن سراحا جميلا سورة الاحزاب آية 49، وقال: واسرحكن سراحا جميلا سورة الاحزاب آية 28، وقال: فإمساك بمعروف او تسريح بإحسان سورة البقرة آية 229، وقال: او فارقوهن بمعروف سورة الطلاق آية 2، وقالت عائشة:" قد علم النبي صلى الله عليه وسلم ان ابوي لم يكونا يامراني بفراقه".أَوِ الْخَلِيَّةُ أَوِ الْبَرِيَّةُ أَوْ مَا عُنِيَ بِهِ الطَّلاَقُ، فَهُوَ عَلَى نِيَّتِهِ، وَقَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا سورة الأحزاب آية 49، وَقَالَ: وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا سورة الأحزاب آية 28، وَقَالَ: فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ سورة البقرة آية 229، وَقَالَ: أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ سورة الطلاق آية 2، وَقَالَتْ عَائِشَةُ:" قَدْ عَلِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ".
یا میں نے رخصت کیا، یا یوں کہے کہ اب تو خالی ہے یا الگ ہے کہ آؤ میں تم کو اچھی طرح سے رخصت کر دوں۔ اسی طرح سورۃ البقرہ میں فرمایا اسی طرح کا کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جس سے طلاق بھی مراد لی جا سکتی ہے تو اس کی نیت کے مطابق طلاق ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہے «وسرحوهن سراحا جميلا»”انہیں خوبی کے ساتھ رخصت کر دو“ اور اسی سورت میں فرمایا «فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسانا»”اس کے بعد یا تو رکھ لینا ہے قاعدہ کے مطابق یا خوش اخلاقی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے“ اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب معلوم تھا کہ میرے والدین (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) «فراق» کا مشورہ دے ہی نہیں سکتے (یہاں «فراق» سے طلاق مراد ہے)۔