كِتَابُ الْحَجِّ وَ الْعُمْرَةِ حج و عمرہ کا بیان حالتِ احرام میں تلبیہ کا بیان
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں تلبیہ کہتے: ” «لَبَّيْكَ اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ، لَا شَرِيْكَ لَكَ.» ”میں حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ہے میں حاضر ہوں، بے شک تعریف اور نعمت تیرے ہی لیے ہے، اور بادشاہی میں تیرا کوئی شریک نہیں۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1540، 1549، 1554، 5914، 5915، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1184، ومالك فى «الموطأ» برقم: 732، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2621، 2622، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3799، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1657، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2681، 2745، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1747، 1748، 1812، والترمذي فى «جامعه» برقم: 825، 826، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1849، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2918، 3047، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9067، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2449، 2450، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4543، والحميدي فى «مسنده» برقم: 675، الطبراني فى «الكبير» برقم: 14030، 14031، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2005، 2744، والطبراني فى «الصغير» برقم: 134، 237»
حكم: صحيح
سیدنا عمرو بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قریب ہی کے زمانے سے ہم نے آپ کو دیکھا ہے، اور جب ہم حج کرتے تو کہتے تھے:
«لَبَّيْكَ تَعْظِيْمًا إِلَيْكَ عُذْرًا» «هَذِيْ زُبَيْدٌ قَدْ اَتَتْكَ قَسْرًا» «يَقْطَعْنَ خَبْتًا وَجِبَالًا وَعَرًا» «قَدْ جَعَلُوْا الْاَنْدَادَ خَلُّوْا صِفْرًا» ”ہم تعظیم سے حاضر ہیں اور تیری طرف معذرت کرتے ہیں، یہ زبید ہے اور تیری طرف غلبے سے آتی ہے۔ یہ طے کرتی ہے پست زمینیں اور سخت پہاڑ بھی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو دیکھا کہ ہم بطنِ محسر میں کھڑے ہیں اور ڈر رہے ہیں کہ جن ہمیں اچک کر لے نہ جائیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بطن عرنہ سے ہٹ جاؤ کیونکہ یہاں تمہارے بھائی ہیں، جبکہ وہ مسلمان ہو جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو یہ تلبیہ سکھایا: «لَبَّيْكَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيْكَ لَكَ» ۔ تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف،و أخرجه الطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 3557، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 1200، والطبراني فى «الكبير» برقم: 100، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2282، والطبراني فى «الصغير» برقم: 157
وفيه شرقي بن قطامي وهو ضعيف وقال البزار إسناده ليس بالثابت، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (3 / 222)» حكم: إسناده ضعيف
|