من كتاب الصيد شکار کے مسائل 6. باب في صَيْدِ الْبَحْرِ: سمندری شکار کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم لوگ سمندر میں سوار ہوتے ہیں اور میٹھا پانی تھوڑا سا اپنے ساتھ لیتے ہیں جس سے اگر وضو کر لیں تو پیاسے رہیں، تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیا کریں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا پانی پاک اور مردہ حلال ہے۔“
تخریج الحدیث: «حديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2054]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 83]، [ترمذي 69]، [نسائي 59]، [ابن ماجه 386] وضاحت:
(تشریح حدیث 2049) جس طرح بری جانور شکار کرنے جائز ہیں اسی طرح بحری جانور مچھلی وغیرہ بھی جائز اور حلال ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ .....﴾ [المائدة: 96] » یعنی ”تمہارے لئے سمندر کا شکار حلال کیا گیا ہے اور اس کا کھانا بھی تمہارے اور گذرتے قافلوں کے لئے ہے ......۔ “ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: حديث صحيح
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سو کے لشکر کے ساتھ بھیجا اور ہمیں بھوک نے آ لیا (یعنی توشۂ راہ ختم ہو گیا)، ہم سمندر پر پہنچے تو اس نے اچانک ایک بڑا سا جانور لا پٹکا جس کو ہم نے خوب کھایا اور ہمارے جسم موٹے ہو گئے۔ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ (امیر لشکر) نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی کھڑی کی اور لشکر کے سب سے لمبے آدمی کو سب سے بڑے اونٹ پر بٹھایا وہ اس کے تلے سے نکل گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2055]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2483، 5493]، [مسلم 1935]، [نسائي 4363]، [أبويعلی 1786]، [ابن حبان 5259]، [الحميدي 1278] وضاحت:
(تشریح حدیث 2050) غالباً یہ وہیل مچھلی ہوگی جو بعض دفعہ اسّی فٹ سے سو فٹ تک طویل ہوتی ہے، جو آیاتِ الٰہیہ میں سے ایک عجیب مخلوق ہے۔ بخاری شریف (5492) میں ہے کہ وہ عنبر مچھلی تھی، اٹھارہ دن تک صرف تین سو افراد کا اسی مچھلی پر گزارہ کرنا یہ محض اللہ کی طرف سے تائیدِ غیبی تھی، اور یہ رجب 8ھ کا واقعہ ہے جس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد مقامات پر بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اس حدیث کو یہاں ذکر کرنے کا مقصد امام دارمی رحمہ اللہ کا یہ ہے کہ مچھلی مردہ بھی کھانا جائز ہے بشرطیکہ بیماری سے نہ مری ہو اور سڑی گلی نہ ہو، کیونکہ ایسی مچھلی صحتِ انسان کے لئے مضر ہے۔ بخاری شریف کی بعض روایات میں ہے کہ صحابہ کرام کو اس مردہ مچھلی کے کھانے میں تردد تھا اور جب وہ مدینہ منورہ واپس آئے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس مچھلی میں سے کچھ باقی بچا ہو تو لاؤ (ہم بھی کھا لیں)۔ “ اس تائید و تقریر سے تمام افرادِ لشکر کی تسلی ہوگئی۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: دریا کے سب مردے درست ہیں خواہ خود بخود مر جائیں یا شکار سے مریں۔ مینڈک کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے اسے بھی حلال کہا ہے۔ سمندر کے باقی جانوروں میں تین قول ہیں: ایک یہ کہ دریا کے کل جانور حلال ہیں۔ دوسرے یہ کہ مچھلی کے سوا کوئی حلال نہیں۔ تیسرے یہ کہ جو خشکی کے جانور ہیں ان کی شبیہ دریا میں بھی حلال ہے، جیسے گھوڑا، دریا کی بکری، ہرن۔ اور جو خشکی کے جانور حرام ہیں، ان کی شبیہ دریا میں بھی حرام ہے، جیسے دریائی کتا، دریائی سور (وحیدی۔ ابن ماجہ)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|