من كتاب الصيد شکار کے مسائل 2. باب في اقْتِنَاءِ كَلْبِ الصَّيْدِ أَوِ الْمَاشِيَةِ: شکار یا مویشی کی حفاظت کے لئے کتا پالنے کا بیان
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے شکار اور مویشی کی غرض کے سوا کتا پالا اس کے عمل (ثواب یا نیکی) میں سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہو جاتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2047]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5480، 5481]، [مسلم 1574]، [ترمذي 1487]، [نسائي 429]، [أبويعلی 5418]، [ابن حبان 5653]، [الحميدي 645، 646] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سائب بن یزید نے سفیان بن ابی زہیر سے سنا وہ ان کے ساتھ لوگوں کو مسجد کے دروازے پر حدیث بیان کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جس نے کتا پالا جو نہ کھیتی کے لئے ہو نہ مویشی کے لئے تو اس کی نیکیوں سے روزانہ ایک قیراط کم ہو جاتا ہے۔ سائب نے کہا: میں نے پوچھا کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، ہاں، اس مسجد کے رب کی قسم (میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2048]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2323]، [مسلم 1576]، [نسائي 426]، [ابن ماجه 3206]، [أحمد 119/5، 120]، [طبراني 6415] وضاحت:
(تشریح احادیث 2042 سے 2044) ان احادیث میں قیراط کا ذکر ہے جو عند اللہ ایک مقدارِ معلوم ہے۔ کتاب الجنائز میں ہے کہ ایک قیراط جبلِ احد کے برابر ہے اور یہاں مراد یہ ہے کہ بے حد نیکیاں کم ہوجاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایسے گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ دوسرے یہ کہ ایسا کتا گذرنے والوں، آنے جانے والے مہمانوں پر حملے کے لئے دوڑتا ہے جس کا گناہ کتا پالنے والے پر ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ گھر کے برتنوں کو منہ ڈال ڈال کر ناپاک کرتا رہتا ہے۔ چوتھے یہ کہ وہ نجاستیں کھا کھا کر گھر پر آتا ہے اور بدبو و دیگر نجاستیں اپنے ساتھ لاتا ہے، اور بھی بہت سی وجوہ ہیں۔ اس لئے شریعتِ اسلامی نے گھر میں بے کار کتا رکھنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے، شکاری اور تربیت دیئے ہوئے دیگر محافظ کتے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ (راز)۔ مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ کھیتی کی حفاظت کے لئے بھی کتا پالا جا سکتا ہے جس طرح شکار اور مویشی کے لئے کتا پالنا جائز ہے، محض شوقیہ کتا پالنا منع ہے، اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کی نیکیوں سے روزانہ بہت بڑی مقدار میں کمی ہوتی رہتی ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبدالله بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا، پھر فرمایا: ”مجھے کتوں سے کیا غرض ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتی اور شکار کے کتے کو رکھنے کی اجازت دیدی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2049]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 280، 1573]، [أبوداؤد 73]، [نسائي 67]، [ابن ماجه 3200]، [أحمد 86/4]، [بغوي 2781] وضاحت:
(تشریح حدیث 2044) «مَا بَالِىْ وَلِلْكِلَابِ» کا مطلب یہ ہے کہ کتا پالنا بے فائدہ بلکہ وہ نجس ہے، احتمال ہے کہ برتن یا کپڑے کو گندہ کر دے۔ رہا کتوں کو قتل کرنے کا معاملہ تو صرف کلب عقور کالا یا کٹ کھنا کتا مارنے کا حکم ہے، اور کھیتی، مویشی، شکار کے کتے اور ضرر نہ پہنچانے والے کتے مستثنیٰ ہیں۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|