من كتاب الصيد شکار کے مسائل 1. باب التَّسْمِيَةِ عِنْدَ إِرْسَالِ الْكَلْبِ وَصَيْدِ الْكِلاَبِ: شکاری کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ کہنے اور کتوں کے شکار کا بیان
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتے کے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کو وہ (کتا) تمہارے لئے پکڑ لے (یعنی خود نہ کھائے) تو اس شکار کو کھا سکتے ہو کیونکہ اس کا شکار کو پکڑنا ذبح کرنا ہی ہے، اور اگر تم اپنے کتے کے ساتھ دوسرا کتا پاؤ اور تمہیں (ڈر ہو) اندیشہ ہو کہ تمہارے کتے نے شکار اس دوسرے کتے کے ساتھ پکڑا ہو گا اور کتا شکار کو مار چکا ہو تو ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ تم نے الله کا نام (بسم اللہ پڑھ کر) اپنے کتے پر لیا تھا دوسرے کتے پر نہیں لیا تھا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2045]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 175، 5475]، [مسلم 1929]، [أبوداؤد 2847]، [نسائي 4275]، [ابن ماجه 3214]، [ابن حبان 5880]، [الحميدي 938]۔ دوسرے کتے سے مراد غیر مسلم کا یا غیر سدھایا ہوا کتا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چوڑی چیز (جیسے بے پر کا تیر، لکڑی، لاٹھی وغیرہ جس میں دھار نہ ہو) سے شکار کے بارے میں پوچھا تو .... اسی کے مثل بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2046]»
اس روایت کی سند صحیح اور تخریج اوپر ذکر کی جا چکی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 2040 سے 2042) بخاری شریف کی روایت میں صراحت ہے کہ اگر اس معراض کی نوک شکار کو لگ جائے تو کھا لو لیکن اگر اس کی عرض (چوڑائی) کی طرف سے شکار کو لگے تو نہ کھاؤ کیونکہ وہ موقوذ ہے، اور ابن ماجہ میں ہے جو اس کی نوک سے مرے اس کو کھا لو، اور جو عرض سے لگ کر مرے وہ مردار ہے (کیونکہ وہ لاٹھی یا پتھر کی مار سے مرنے والے جانور کی طرح مردار ہے)۔ مزید تشریح آگے چوتھے باب میں آ رہی ہے۔ شریعتِ اسلامیہ میں کھانے کی غرض سے چرندے اور پرندوں کا شکار جائز ہے۔ یہ شکار بندوق، غلیل، لاٹھی یا جال سے کیا جائے یا سدھائے ہوئے باز، کتے، عقاب وغیرہ کی مدد سے کیا جائے ہر طرح جائز ہے، لیکن اس کے کچھ شروط ہیں، اہم چیز یہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کے شکار کیا جائے اور ذبح کرنے کا موقع مل جائے تو وہ شکار بلاشک و شبہ حلال ہے، کتے اور باز کو بھی چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیا جائے اور وہ صرف شکار کو پکڑ لیں تو ذبح کر کے اس کو کھایا جا سکتا ہے شرط یہ ہے کہ وہ كلب معلم ہو یعنی سدھایا اور سکھایا ہوا کتا ہو، جیسا کہ کلامِ ربانی ہے: « ﴿وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ .....﴾ [المائده: 4] » ترجمہ: ”اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے، پس وہ جس شکار کو تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تم اس کو کھا لو اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لے لیا کرو .....“۔ اس آیت اور مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ کتا یا باز اگر شکار میں سے کچھ کھا لے تو وہ حلال و جائز نہیں، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کتے کا منہ یا لعاب شکار سے لگ جائے تب بھی کوئی قباحت اس کے کھانے میں نہیں ہے کیونکہ یہ الله تعالیٰ کی طرف سے خصوصی اور استثنائی اجازت ہے، نیز حدیث مذکور سے یہ بھی ثابت ہوا کہ شکار میں اپنا اور دوسرے کا کتا بھی شریک ہو اور شکار مر جائے تو وہ حرام ہے۔ نیز کوئی مسلمان كلب معلم کو چھوڑتے وقت اگر بسم اللہ پڑھے اور وہ شکار مر جائے تو بھی جمہور علماء کے نزدیک حلال ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|