من كتاب الصيد شکار کے مسائل 3. باب في قَتْلِ الْكِلاَبِ: کتوں کو مار ڈالنے کا بیان
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 2050]»
اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3323]، [مسلم 1570]، [ترمذي 1488]، [نسائي 4288]، [ابن ماجه 3203]، [أبويعلی 5620]، [ابن حبان 5648] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کتے امتوں میں سے ایک امت نہ ہوتے تو میں تمام کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیتا لیکن اب تم صرف بالکل کالے کتے کو مار ڈالو۔“ سعید بن عامر نے کہا: «بهيم» وہ کتا ہے جو بالکل کالا ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2051]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2845]، [ترمذي 1486]، [نسائي 4291]، [ابن ماجه 3205]، [ابن حبان 5650] وضاحت:
(تشریح احادیث 2045 سے 2047) امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: علماء کا اجماع ہے کہ کاٹنے والا کتا مار ڈالا جائے۔ امام الحرمین نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا پھر یہ منسوخ ہوگیا اور کالا سیاہ کتا اسی حکم پر باقی رہا۔ اس کے بعد یہ ٹھہرا کہ کس قسم کا کتا مارا جائے جب تک کہ وہ نقصان نہ پہنچا دے یہاں تک کہ کالا بھجنگ بھی، اور ثواب کم ہونے کا سبب یہ ہوگا کہ فرشتے اس گھر میں نہیں جا سکتے جس کے پاس کتا ہوتا ہے، اور بعض نے کہا کہ اس وجہ سے کہ لوگوں کو ایذا ہوتی ہے اس کے بھونکنے اور حملہ کرنے سے، اور یہ جو فرمایا کہ امّت نہ ہوتی امّتوں میں سے اس کا مطلب یہ ہے کہ کتا بھی ایک قسم کی نوع ہے، یعنی عالم کی قسم ہے اس کا فنا کرنا ممکن نہیں، اس لئے قتل کا حکم دینا بے کار ہے، کتنے ہی قتل کرو لیکن دنیا میں کتے ضرور باقی رہیں گے جب تک دنیا باقی ہے، آپ دیکھئے کہ سانپ اور بچھو، شیر اور بھیڑیئے لوگ صدہا ہزار سال سے جہاں پاتے ہیں مار ڈالتے ہیں اور صدہا ہزارہا روپیہ انعام ان کے مارنے پر دیا جاتا ہے مگر کیا یہ انواع دنیا سے مٹ گئیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|