حدثنا موسى، قال: حدثنا عبد العزيز بن مسلم، عن عبد الله بن دينار قال: سمعت ابن عمر يقول: راى عمر رضي الله عنه حلة سيراء تباع فقال: يا رسول الله، ابتع هذه، فالبسها يوم الجمعة، وإذا جاءك الوفود، قال: ”إنما يلبس هذه من لا خلاق له“، فاتي النبي صلى الله عليه وسلم منها بحلل، فارسل إلى عمر بحلة، فقال: كيف البسها وقد قلت فيها ما قلت؟ قال: ”إني لم اعطكها لتلبسها، ولكن تبيعها او تكسوها“، فارسل بها عمر إلى اخ له من اهل مكة قبل ان يسلم.حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ: رَأَى عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حُلَّةً سِيَرَاءَ تُبَاعُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، ابْتَعْ هَذِهِ، فَالْبَسْهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَإِذَا جَاءَكَ الْوُفُودُ، قَالَ: ”إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لاَ خَلاَقَ لَهُ“، فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا بِحُلَلٍ، فَأَرْسَلَ إِلَى عُمَرَ بِحُلَّةٍ، فَقَالَ: كَيْفَ أَلْبَسُهَا وَقَدْ قُلْتَ فِيهَا مَا قُلْتَ؟ قَالَ: ”إِنِّي لَمْ أُعْطِكَهَا لِتَلْبَسَهَا، وَلَكِنْ تَبِيعَهَا أَوْ تَكْسُوَهَا“، فَأَرْسَلَ بِهَا عُمَرُ إِلَى أَخٍ لَهُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ریشمی جوڑا جسے سیراء کہا جاتا تھا فروخت ہوتے دیکھا تو کہا: یا رسول اللہ! آپ یہ جوڑا خرید لیں اور جمعہ کے روز زیب تن کر لیا کریں، اور جب آپ کے پاس (دوسرے علاقوں سے) وفود آتے ہیں تو بھی پہن لیا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایسا (جوڑا) تو صرف وہی پہنتا ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہ ہو۔“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی طرح کے جوڑے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک ریشمی جوڑا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا۔ انہوں نے کہا: میں یہ (ریشمی جوڑا) کیسے پہنوں حالانکہ آپ اس سے قبل اس بارے میں یہ فرما چکے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ یہ جوڑا میں نے تمہیں اس لیے نہیں دیا کہ تم اسے پہنو، بلکہ (اس لیے دیا ہے کہ) تم اسے فروخت کر لو یا پھر کسی کو پہنا دو۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہ (جوڑا) اپنے ایک بھائی کو، جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوا تھا، مکہ بھیج دیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب صلة الأخ المشرك: 5981 و مسلم: 2068، صحيح أبى داؤد: 987»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 26
فوائد ومسائل: (۱)امام بخاری رحمہ اللہ اس روایت کو ”مشرک باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے“ کے باب میں لائے ہیں حالانکہ اس میں بھائی کا ذکر ہے باپ کا ذکر نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باپ کے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا گویا باپ کے ساتھ صلہ رحمی کے مترادف ہے جس کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَصِلَ أبَاهٗ فِیْ قَبْرِهِ فَلْیُصَلِّ إخْوَانَ أَبِیْهٖ بَعْدهٗ)) ”جو شخص چاہتا ہے کہ اپنے باپ کے ساتھ اس کی قبر میں بھی صلہ رحمی کرے تو اسے چاہیے کہ باپ کی وفات کے بعد اس کے بھائیوں سے صلہ رحمی کرے۔“(صحیح الترغیب، حدیث: ۲۵۰۶) باپ کی وفات کے بعد اس کے بھائیوں (جو انسان کے چچے یا تائے ہیں)سے صلہ رحمی کی ترغیب ہے تو اس کی اولاد (انسان کے بھائی)اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ کیونکہ یہ باپ اور خود اپنے زیادہ قریبی ہیں۔ (۲) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت کرتے تھے اور پسند کرتے تھے کہ آپ کا لباس نہایت عمدہ ہو۔ اگر انہیں استطاعت ہوتی تو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کر دیتے جیسا کہ آپ کے ایک ساتھی نے ہجرت کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو راستے میں سفید کپڑے بطور تحفہ پیش کیے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اگر خود خرید سکتے ہوتے تو یقیناً خرید کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیتے۔ (۳) جمعہ کے روز اور مہمانوں وغیرہ کی آمد پر بہترین لباس زیب تن کرنا چاہیے جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرنے ”کہ آپ جمعہ اور وفود کی آمد پر پہن لیا کریں“ سے ظاہر ہوتا ہے۔ (۴) اگر اللہ تعالیٰ نے وسائل دیے ہوں تو قیمتی لباس بھی پہنا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ اس سے مقصود ریاکاری اور تکبر نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اظہار ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی ہونے کی وجہ سے خریدنے سے انکار کیا کیونکہ ریشم اور سونا مسلمان مردوں کے لیے استعمال کرنا حرام ہے۔ نہ خریدنے کی وجہ اس کا قیمتی ہونا نہیں تھا۔ (۵) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے صحابہ کو تحائف دیتے تھے۔ اس سے محبت بڑھتی ہے۔ علمائے کرام کیونکہ انبیاء کے وارث ہیں اس لیے انہیں بھی حسب استطاعت اپنے عوام کو تحائف دینے چاہئیں۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو ایسی چیز کا تحفہ دینا بھی جائز ہے جس کا استعمال اس کے لیے جائز نہ ہو لیکن لینے والے کو آگے ایسے شخص کو ہدیہ کر دینا چاہیے جس کے لیے اس کا استعمال جائز ہے جیسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنا ریشمی جبہ جو انہیں ہدیے میں ملا تھا اپنے خاندان کی عورتوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ یا پھر اسے فروخت کرکے اس سے فائدہ اٹھائے۔ تاہم حرام چیز مثلاً شراب وغیرہ کافر کو تحفہ میں نہیں دی جاسکتی۔ (۶) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھائی کو تحفہ اسی ذہن کے ساتھ دیا تھا، جس ذہن کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کو دیا تھا۔ نہ کہ یہ مقصد تھا کہ مشرک کے لیے ریشم کا استعمال جائز ہے۔ یہ تو کافر کو اسلام کی مخالفت کرنے کی ترغیب دینے والی بات ہوئی اگرچہ حدیث میں الفاظ ”لتبیعہا او تکسوہا“ ہیں لیکن کَسَا یَکْسُوْ کا معنی صرف عطا کرنا بھی ہے جیسے بخاری میں دوسری جگہ (۸۸۶)ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: ”انی لم اَکْسُکَھَا لِتَلْبَسَھَا“ میں نے یہ اس لیے تجھے نہیں دیا تھا کہ تو اسے خود پہنے۔ (۷) کافر اسلامی احکام کے پابند ہیں یا نہیں یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے اس کی وضاحت آئندہ حدیث ۷۱ کے تحت آئے گی۔ (۸) شیخ البانی رحمہ اللہ نے شرح الادب المفرد میں اس حدیث کے تحت امام نووی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کم درجے والا اپنے سے زیادہ مرتبے والے کو اور تابع متبوع کو کسی ایسی چیز کی یاد دہانی کروا سکتا ہے جس میں اس کی مصلحت ہو اور اسے یاد نہ ہو (جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حلے کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد دہانی کروائی۔) اور اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کے دروازے کے قریب خرید و فروخت جائز ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام نووی رحمہ اللہ نے بخاری و مسلم کی روایات کی روشنی میں استنباط کیا ہے جن میں ہے کہ وہ حلہ مسجد کے دروازے پر بک رہا تھا لیکن یہ اس وقت جائز ہوگا جب مسجد میں شور نہ آئے اور نمازی متأثر نہ ہوں۔ (۹) کافر رشتہ داروں کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرنی چاہیے بالخصوص جب ان کے اسلام لانے کی امید ہو لیکن دلی دوستی صرف مومنوں ہی سے ہونی چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 26