دیگر صحابہ کی فضیلت کا بیان سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات (کسی جنگ سے واپس آتے ہوئے) مدینہ کے راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی اور نیند اچاٹ ہو گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاش میرے اصحاب میں سے کوئی نیک بخت رات بھر میری حفاظت کرے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اتنے میں ہمیں ہتھیاروں کی آواز معلوم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون ہے؟ آواز آئی کہ یا رسول اللہ! سعد بن ابی وقاص ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کیوں آئے؟ وہ بولے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے نفس میں ڈر ہوا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنے کو آیا ہوں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی اور پھر سو رہے۔
سیدنا عامر بن سعد اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن اپنے والدین کو ان کے لئے جمع کیا۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مشرکوں میں سے ایک شخص تھا جس نے بہت سے مسلمانوں کو جلا دیا تھا (یعنی بہت سے مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے سعد تیر چلاؤ تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں“ میں نے اس کے لئے ایک تیر نکالا جس میں پیکان نہ تھا وہ اس کی پسلی میں لگا اور وہ (مشرک) گر گیا تو اس کی شرمگاہ کھل گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر ہنسے، یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک کو دیکھا۔
مصعب بن سعد اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے بارے میں قرآن کی کئی آیتیں اتریں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ ان سے کبھی بات نہ کرے گی جب تک وہ اپنا دین (یعنی اسلام کو) نہ چھوڑیں گے۔ اور نہ کھائے گی نہ پئے گی۔ وہ کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے ماں باپ کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور میں تیری ماں ہوں اور تجھے اس بات کا حکم کرتی ہوں۔ پھر تین دن تک یوں ہی رہی کچھ کھایا نہ پیا، یہاں تک کہ اس کو غش آ گیا۔ آخر اس کا ایک بیٹا جس کا نام عمارہ تھا، کھڑا ہوا اور اس کو پانی پلایا۔ پس وہ سیدنا سعد کے لئے بددعا کرنے لگی تو اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں یہ آیات اتاریں کہ ”اور ہم نے آدمی کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا“ (العنکبوت: 8) لیکن اگر وہ تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کا شریک کرے جس کا تجھے علم نہیں، تو ان کی بات مت مان (یعنی شرک مت کر) اور ان کے ساتھ دنیا میں دستور کے موافق رہ“۔ (لقمان: 5)۔ اور ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سا مال غنیمت ہاتھ آیا اور اس میں ایک تلوار بھی تھی, وہ میں نے لے لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لا کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ تلوار مجھے انعام دے دیجئیے جبکہ میرا حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو وہیں رکھ دے جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔ میں گیا اور میں نے قصد کیا کہ پھر اس کو مال غنیمت کے ڈھیر میں ڈال دوں، لیکن میرے دل نے مجھے ملامت کی اور میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹا اور عرض کیا کہ یہ تلوار مجھے دے دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے فرمایا کہ اس کو اسی جگہ رکھ دے جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”وہ تجھ سے مال غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں“ (انفال: 1)۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بیمار ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اپنا مال جس کو چاہوں بانٹ دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مانا۔ میں نے کہا کہ اچھا آدھا مال بانٹ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ مانے۔ میں نے کہا کہ اچھا تہائی مال بانٹ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے۔ پھر یہی حکم ہوا کہ تہائی مال بانٹنا درست ہے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک بار میں انصار اور مہاجرین کے کچھ لوگوں کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ آؤ ہم تمہیں کھانا کھلائیں گے اور شراب پلائیں گے اور اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔ میں ان کے ساتھ ایک باغ میں گیا، وہاں ایک اونٹ کے سر کا گوشت بھونا گیا تھا اور شراب کی ایک مشک رکھی تھی، میں نے ان کے ساتھ گوشت کھایا اور شراب پی۔ وہاں مہاجرین اور انصار کا ذکر آیا تو میں نے کہا کہ مہاجرین انصار سے بہتر ہیں۔ ایک شخص نے جبڑے کی ایک ہڈی لی اور مجھے مارا۔ میرے ناک میں زخم لگا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے یہ آیت اتاری کہ ”شراب، جوا، تھان اور پانسے یہ سب نجاست ہیں اور شیطان کے کام ہیں“ (المائدہ: 90)
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم چھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ مشرکوں نے کہا کہ آپ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہانک دیجئیے، یہ ہم پر جرات نہ کریں گے۔ ان لوگوں میں میں تھا، ابن مسعود تھے اور ایک شخص ہذیل کا تھا اور بلال اور دو شخص اور تھے جن کا نام میں نہیں لیتا۔ آپ کے دل جو اللہ نے چاہا وہ آیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل ہی دل میں باتیں کیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”مت بھگا ان لوگوں کو جو اپنے رب کو صبح اور شام کو پکارتے ہیں اور اس کی رضامندی چاہتے ہیں“ (الانعام: 52)۔
|