فضائل قرآن کے بیان میں क़ुरआन की फ़ज़ीलत के बारे में قرآن کتنی مدت میں مکمل پڑھنا چاہیے؟
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد (سیدنا عمرو بن عاص) رضی اللہ عنہ نے ایک اچھے خاندان کی عورت سے میرا نکاح کر دیا تھا اور وہ اپنی بہو سے (اکثر اوقات) اس کے شوہر کا (میرا) حال پوچھتے رہتے، وہ جواب دیتی ہاں ہاں اچھا اور نیک آدمی ہے مگر جب سے میں آئی ہوں کہ میرے تو بچھونے پر کبھی قدم بھی نہیں رکھا اور نہ میرے قریب آیا۔ جب ایک عرصہ گزر گیا تو (میرے والد نے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے میرے پاس لاؤ؟“ میں (آپ کے بلانے سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تو روزے کس طرح رکھتا ہے؟“ میں نے کہا روزانہ (رکھتا ہوں) پھر فرمایا: ”تو قرآن کیونکر مکمل کرتا ہے؟“ میں نے کہا ہر رات۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے میں تین روزے رکھا کرو اور مہینے بھر میں قرآن مکمل پڑھا کرو۔“ میں نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ طاقت حاصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک ہفتہ میں تین روزے رکھ لیا کر۔“ میں نے کہا کہ مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت حاصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیشہ دو دن افطار کیا کر اور ایک دن روزہ رکھا کر۔“ میں نے کہا کہ مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت حاصل ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا! سب روزوں سے افضل روزہ داؤد علیہ السلام کا اختیار کر یعنی ایک دن روزہ رکھ اور ایک دن افطار کر اور سات راتوں میں قرآن مکمل کر۔“ (سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں) کاش! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت منظور کر لیتا کیونکہ اب میں بوڑھا اور ضعیف ہو گیا ہوں (مجھ میں وہ طاقت نہ رہی) پھر وہ قرآن کا ساتواں حصہ (ایک منزل) اپنے گھر والوں سے کسی کو دن میں سنا دیا کرتے تھے۔ جو منزل رات کو پڑھنا ہوتی وہ دن میں دہرا لیتے تاکہ رات کو اس کا پڑھنا آسان ہو جائے اور جب کمزور ہو جاتے اور طاقت حاصل کرنا چاہتے تو کئی روز تک مسلسل روزہ نہ رکھتے پھر (وہ دن) شمار کر کے اتنے روزے رکھ لیتے، انھیں یہ برا معلوم ہوتا کہ کہیں کوئی امر ایسا رہ جائے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا کرتے تھے۔
|