(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا النضر بن إسماعيل ابو المغيرة، عن محمد بن سوقة، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: خطبنا عمر بالجابية، فقال: يا ايها الناس، إني قمت فيكم كمقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فينا، فقال: " اوصيكم باصحابي، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يفشو الكذب، حتى يحلف الرجل ولا يستحلف ويشهد الشاهد ولا يستشهد، الا لا يخلون رجل بامراة إلا كان ثالثهما الشيطان، عليكم بالجماعة وإياكم والفرقة فإن الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين ابعد، من اراد بحبوحة الجنة فليلزم الجماعة، من سرته حسنته وساءته سيئته فذلك المؤمن "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وقد رواه ابن المبارك، عن محمد بن سوقة، وقد روي هذا الحديث من غير وجه، عن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ إِسْمَاعِيل أَبُو الْمُغِيرَةِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: خَطَبَنَا عُمَرُ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي قُمْتُ فِيكُمْ كَمَقَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا، فَقَالَ: " أُوصِيكُمْ بِأَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ، حَتَّى يَحْلِفَ الرَّجُلُ وَلَا يُسْتَحْلَفُ وَيَشْهَدَ الشَّاهِدُ وَلَا يُسْتَشْهَدُ، أَلَا لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ، عَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَإِيَّاكُمْ وَالْفُرْقَةَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَهُوَ مِنَ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ، مَنْ أَرَادَ بُحْبُوحَةَ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمْ الْجَمَاعَةَ، مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَذَلِكَ الْمُؤْمِنُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مقام جابیہ میں (میرے والد) عمر رضی الله عنہ ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، انہوں نے کہا: لوگو! میں تمہارے درمیان اسی طرح (خطبہ دینے کے لیے) کھڑا ہوا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اپنے صحابہ کی پیروی کی وصیت کرتا ہوں، پھر ان کے بعد آنے والوں (یعنی تابعین) کی پھر ان کے بعد آنے والوں (یعنی تبع تابعین) کی، پھر جھوٹ عام ہو جائے گا، یہاں تک کہ قسم کھلائے بغیر آدمی قسم کھائے گا اور گواہ گواہی طلب کیے جانے سے پہلے ہی گواہی دے گا، خبردار! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے، تم لوگ جماعت کو لازم پکڑو اور پارٹی بندی سے بچو، کیونکہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ رہتا ہے، دو کے ساتھ اس کا رہنا نسبۃً زیادہ دور کی بات ہے، جو شخص جنت کے درمیانی حصہ میں جانا چاہتا ہو وہ جماعت سے لازمی طور پر جڑا رہے اور جسے اپنی نیکی سے خوشی ملے اور گناہ سے غم لاحق ہو حقیقت میں وہی مومن ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اسے ابن مبارک نے بھی محمد بن سوقہ سے روایت کیا ہے، ۳- یہ حدیث کئی سندوں سے عمر کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأحکام 27 (2363) (والنسائي في الکبری) و مسند احمد (1/18، 26) (تحفة الأشراف: 10530) (صحیح) (ویأتي الإشارة إلیہ برقم: 2303)»
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن نافع البصري، حدثني المعتمر بن سليمان، حدثنا سليمان المدني، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله لا يجمع امتي، او قال: امة محمد صلى الله عليه وسلم على ضلالة، ويد الله مع الجماعة، ومن شذ شذ إلى النار "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه، وسليمان المدني هو عندي سليمان بن سفيان، وقد روى عنه ابو داود الطيالسي، وابو عامر العقدي، وغير واحد من اهل العلم، قال ابو عيسى: وتفسير الجماعة عند اهل العلم هم اهل الفقه والعلم والحديث، قال: وسمعت الجارود بن معاذ، يقول: سمعت علي بن الحسن، يقول: سالت عبد الله بن المبارك: من الجماعة؟ فقال: ابو بكر وعمر، قيل له: قد مات ابو بكر وعمر، قال: فلان وفلان، قيل له: قد مات فلان وفلان، فقال عبد الله بن المبارك، وابو حمزة السكري جماعة، قال ابو عيسى: وابو حمزة هو محمد بن ميمون، وكان شيخا صالحا، وإنما قال هذا في حياته عندنا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنِي الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ، عَنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي، أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ هُوَ عِنْدِي سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَتَفْسِيرُ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ هُمْ أَهْلُ الْفِقْهِ وَالْعِلْمِ وَالْحَدِيثِ، قَالَ: وَسَمِعْتُ الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحَسَنِ، يَقُولُ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ: مَنِ الْجَمَاعَةُ؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، قِيلَ لَهُ: قَدْ مَاتَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، قَالَ: فُلَانٌ وَفُلَانٌ، قِيلَ لَهُ: قَدْ مَاتَ فُلَانٌ وَفُلَانٌ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَبُو حَمْزَةَ السُّكَّرِيُّ جَمَاعَةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو حَمْزَةَ هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ، وَكَانَ شَيْخًا صَالِحًا، وَإِنَّمَا قَالَ هَذَا فِي حَيَاتِهِ عِنْدَنَا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ میری امت کو یا یہ فرمایا: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا، اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد و نصرت) جماعت کے ساتھ ہے، جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- سلیمان مدنی میرے نزدیک سلیمان بن سفیان ہی ہیں، ان سے ابوداؤد طیالسی، ابوعامر عقدی اور کئی اہل علم نے روایت کی ہے، ۳- اہل علم کے نزدیک ”جماعت“ سے مراد اصحاب فقہ اور اصحاب علم اور اصحاب حدیث ہیں، ۴- علی بن حسین کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا: جماعت سے کون لوگ مراد ہیں؟ انہوں نے کہا: ابوبکر و عمر، ان سے کہا گیا: ابوبکر و عمر تو وفات پا گئے، انہوں نے کہا: فلاں اور فلاں، ان سے کہا گیا: فلاں اور فلاں بھی تو وفات پا چکے ہیں تو عبداللہ بن مبارک نے کہا: ابوحمزہ سکری جماعت ہیں ۱؎، ۵- ابوحمزہ کا نام محمد بن میمون ہے، وہ صالح اور نیک شیخ تھے، عبداللہ بن مبارک نے یہ بات ہم سے اس وقت کہی تھی جب ابوحمزہ باحیات تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7188) (صحیح) (سند میں ”سلیمان مدنی“ ضعیف ہیں، لیکن ”من شذ شذ إلى النار“ کے سوا دیگر ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں، دیکھیے ظلال الجنة رقم: 80)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اگر ایک آدمی بھی صحیح عقیدہ و منہج پر ہو تو وہ اکیلے بھی جماعت ہے، اصل معیار صحیح عقیدہ و منہج پر ہونا ہے، نہ کہ بڑی تعداد میں ہونا، اس لیے تقلید کے شیدائیوں کا یہ کہنا کہ تقلید پر امت کی اکثریت متفق ہے، اس لیے مقلدین ہی سواد اعظم ہیں، سراسر مغالطہٰ ہے۔