كتاب الأشربة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: مشروبات (پینے والی چیزوں) کے احکام و مسائل 11. باب مَا جَاءَ فِي النَّهْىِ عَنِ الشُّرْبِ، قَائِمًا باب: کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کا بیان۔
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا، پوچھا گیا: کھڑے ہو کر کھانا کیسا ہے؟ کہا: ”یہ اور برا ہے“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأشربة 14 (2024)، سنن ابی داود/ الأشربة 13 (3717)، سنن ابن ماجہ/الأشربة 21 (3424)، (تحفة الأشراف: 1180)، و مسند احمد (3/118، 182، 277) سنن الدارمی/الأشربة 24 (2173) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3424)
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چلتے ہوئے کھاتے تھے اور کھڑے ہو کر پیتے تھے ۱؎۔
۱- یہ حدیث «عبيد الله بن عمر عن نافع عن ابن عمر» کی سند سے صحیح غریب ہے، ۲- عمران بن حدیر نے اس حدیث کو ابوالبزری کے واسطہ سے ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت کی ہے، ۳- ابوالبزری کا نام یزید بن عطارد ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأطعمة 25 (3301)، (تحفة الأشراف: 7821) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے پہلے والی حدیث سے معلوم ہوا کہ کھڑے ہو کر کھانا پینا منع ہے، اس حدیث سے اس کے جواز کا پتہ چلتا ہے، دونوں حدیثوں میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ انس رضی الله عنہ کی روایت کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا (یعنی نہ پینا بہتر اور اچھا ہے) جب کہ اس حدیث کو کراہت کے ساتھ جواز پر محمول کیا جائے گا۔ یعنی جہاں مجبوری ہو وہاں ایسا کرنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (4275)
جارود بن معلی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا۔
۱- یہ حدیث غریب حسن ہے، ۲- اسی طرح کئی لوگوں نے اس حدیث کو «عن سعيد عن قتادة عن أبي مسلم عن الجارود عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کیا ہے، اور یہ حدیث بطریق: «عن قتادة عن يزيد بن عبد الله ابن الشخير عن أبي مسلم عن الجارود أن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”مسلمان کی گری ہوئی چیز (یعنی اس پر قبضہ کرنے کی نیت سے) اٹھانا آگ میں جلنے کا سبب ہے“، ۳- اس باب میں ابو سعید خدری، ابوہریرہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3177) (صحیح) (سند میں ابو مسلم جذمی مقبول عند المتابعہ ہیں، ورنہ لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث رقم 1879 سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح بما قبله (1879)
|