أبواب السفر کتاب: سفر کے احکام و مسائل 39. باب مَا جَاءَ فِي التَّقْصِيرِ فِي السَّفَرِ باب: سفر میں قصر نماز پڑھنے کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم کے ساتھ سفر کیا، یہ لوگ ظہر اور عصر دو دو رکعت پڑھتے تھے۔ نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھتے اور نہ اس کے بعد۔ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: اگر میں اس سے پہلے یا اس کے بعد (سنت) نماز پڑھتا تو میں انہی (فرائض) کو پوری پڑھتا۔
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے اس طرح یحییٰ بن سلیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: یہ حدیث بطریق: «عن عبيد الله بن عمر عن رجل من آل سراقة عن عبد الله بن عمر» بھی مروی ہے، ۳- اور عطیہ عوفی ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں نماز سے پہلے اور اس کے بعد نفل پڑھتے تھے ۱؎، ۴- اس باب میں عمر، علی، ابن عباس، انس، عمران بن حصین اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۵- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہم سفر میں قصر کرتے تھے اور عثمان رضی الله عنہ بھی اپنی خلافت کے شروع میں قصر کرتے تھے، ۶- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، ۷- اور عائشہ سے مروی ہے کہ وہ سفر میں نماز پوری پڑھتی تھیں ۲؎، ۸- اور عمل اسی پر ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے مروی ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، البتہ شافعی کہتے ہیں کہ سفر میں قصر کرنا رخصت ہے، اگر کوئی پوری نماز پڑھ لے تو جائز ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8223) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث ۵۵۱ پر مولف کے یہاں آ رہی ہے، اور ضعیف و منکر ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1071)
ابونضرہ سے روایت ہے کہ عمران بن حصین رضی الله عنہ سے مسافر کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا تو آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں، اور میں نے ابوبکر رضی الله عنہ کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں، اور عمر رضی الله عنہ کے ساتھ کیا تو انہوں نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں، اور عثمان رضی الله عنہ کے ساتھ ان کی خلافت کے ابتدائی چھ یا آٹھ سالوں میں کیا تو انہوں نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں۔
یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف بہذا السیاق، وأخرج أبوداود (الصلاة 279/رقم1229) بہذا السند أیضا لکنہ بسیاق آخر (تحفة الأشراف: 10862) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح بما قبله
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں ۱؎ اور ذی الحلیفہ ۲؎ میں دو رکعتیں پڑھیں۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 5 (1089)، والحج 24 (1556)، و25 (1548)، و119 (1714)، والجہاد 104 (2951)، صحیح مسلم/المسافرین 1 (690)، سنن ابی داود/ الصلاة 271 (1202)، والحج 21 (1773)، سنن النسائی/الصلاة 11 (470)، و17 (478)، (تحفة الأشراف: 1573166)، مسند احمد (3/110، 111، 177، 186، 237، 268، 378)، سنن الدارمی/الصلاة 179 (1548) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جب حج کے لیے مدینہ سے نکلے تو مسجد نبوی میں چار پڑھی، جب مدینہ سے نکل کر ذوالحلیفہ میقات پر پہنچے تو وہاں دو قصر کر کے پڑھی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1085)
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے، آپ کو سوائے اللہ رب العالمین کے کسی کا خوف نہ تھا۔ (اس کے باوجود) آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں ۱؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن النسائی/تقصیر الصلاة 1 (1436)، (تحفة الأشراف: 6436)، مسند احمد (1/215، 236، 245، 262) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما اس سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سفر میں قصر خوف کی وجہ سے نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں، سفر خواہ کیسا بھی پرامن ہو اس میں قصر رخصت ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (3 / 6)
|