سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
أبواب الوتر​
کتاب: صلاۃ وترکے ابواب
The Book on Al-Witr
21. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّلاَةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) بھیجنے کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Virtues Of Sending Salat Upon The Prophet
حدیث نمبر: 484
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار بندار، حدثنا محمد بن خالد ابن عثمة، حدثني موسى بن يعقوب الزمعي، حدثني عبد الله بن كيسان، ان عبد الله بن شداد اخبره، عن عبد الله بن مسعود، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " اولى الناس بي يوم القيامة اكثرهم علي صلاة " قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " من صلى علي صلاة صلى الله عليه بها عشرا وكتب له بها عشر حسنات ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَيْسَانَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَدَّادٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَوْلَى النَّاسِ بِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلَاةً " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرُوِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا وَكَتَبَ لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ ".
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن مجھ سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ۱؎ وہ ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ صلاۃ (درود) بھیجے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا جو مجھ پر ایک بار صلاۃ (درود) بھیجتا ہے، اللہ اس پر اس کے بدلے دس بار صلاۃ (درود) بھیجتا ہے ۲؎، اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں (یہی حدیث آگے آ رہی ہے)۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 934) (ضعیف) (سند میں موسیٰ بن یعقوب صدوق لیکن سیٔ الحفظ راوی ہیں، اور محمد بن خالد بھی صدوق ہیں لیکن روایت میں خطا کرتے ہیں (التقریب)»

وضاحت:
۱؎: سب سے زیادہ قریب اور نزدیک ہونے کا مطلب ہے: میری شفاعت کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔
۲؎: یعنی اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (2 / 280)
حدیث نمبر: 485
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن جعفر، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صلى علي صلاة صلى الله عليه بها عشرا " قال: وفي الباب عن عبد الرحمن بن عوف , وعامر بن ربيعة , وعمار , وابي طلحة , وانس , وابي بن كعب، قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، وروي عن سفيان الثوري وغير واحد من اهل العلم، قالوا: صلاة الرب الرحمة وصلاة الملائكة الاستغفار.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ , وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ , وَعَمَّارٍ , وَأَبِي طَلْحَةَ , وَأَنَسٍ , وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرُوِي عَنْ سفيان الثوري وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: صَلَاةُ الرَّبِّ الرَّحْمَةُ وَصَلَاةُ الْمَلَائِكَةِ الِاسْتِغْفَارُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مجھ پر ایک بار صلاۃ (درود) بھیجے گا، اللہ اس کے بدلے اس پر دس بار صلاۃ (درود) بھیجے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، عامر بن ربیعہ، عمار، ابوطلحہ، انس اور ابی بن کعب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- سفیان ثوری اور دیگر کئی اہل علم سے مروی ہے کہ رب کے صلاۃ (درود) سے مراد اس کی رحمت ہے اور فرشتوں کے صلاۃ (درود) سے مراد استغفار ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 17 (408)، سنن ابی داود/ الصلاة 361 (153)، سنن النسائی/السہو 55 (1297)، (تحفة الأشراف: 13974)، مسند احمد (2/373، 375، 485)، سنن الدارمی/الرقاق 58 (2814) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1369)
حدیث نمبر: 486
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا ابو داود سليمان بن سلم المصاحفي البلخي، اخبرنا النضر بن شميل، عن ابي قرة الاسدي، عن سعيد بن المسيب، عن عمر بن الخطاب، قال: " إن الدعاء موقوف بين السماء والارض لا يصعد منه شيء حتى تصلي على نبيك صلى الله عليه وسلم ".(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ الْمَصَاحِفِيُّ الْبَلْخِيُّ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، عَنْ أَبِي قُرَّةَ الْأَسَدِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: " إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَا يَصْعَدُ مِنْهُ شَيْءٌ حَتَّى تُصَلِّيَ عَلَى نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان رکی رہتی ہے، اس میں سے ذرا سی بھی اوپر نہیں جاتی جب تک کہ تم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) نہیں بھیج لیتے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10449) (حسن) (الصحیحة 2035)»

قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (2035)
حدیث نمبر: 487
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا عباس العنبري، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن مالك بن انس، عن العلاء بن عبد الرحمن بن يعقوب، عن ابيه عن جده، قال: قال عمر بن الخطاب: " لا يبع في سوقنا إلا من قد تفقه في الدين ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، عباس هو ابن عبد العظيم، قال ابو عيسى: يعقوب وهو مولى الحرقة، والعلاء هو من التابعين، سمع من انس بن مالك وغيره، وعبد الرحمن بن يعقوب والد العلاء، وهو ايضا من التابعين، سمع من ابي هريرة , وابي سعيد الخدري , وابن عمر، ويعقوب جد العلاء هو من كبار التابعين ايضا، قد ادرك عمر بن الخطاب وروى عنه.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: " لَا يَبِعْ فِي سُوقِنَا إِلَّا مَنْ قَدْ تَفَقَّهَ فِي الدِّينِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، عَبَّاسٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: يعقوب وهو مولى الحرقة، والعلاء هو من التابعين، سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَغَيْرِهِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَعْقُوبَ وَالِدُ الْعَلَاءِ، وَهُوَ أَيْضًا مِنَ التَّابِعِينَ، سَمِعَ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , وَابْنِ عُمَرَ، وَيَعْقُوبَ جَدُّ الْعَلَاءِ هُوَ مِنْ كِبَارِ التَّابِعِينَ أَيْضًا، قَدْ أَدْرَكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَرَوَى عَنْهُ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہمارے بازار میں کوئی خرید و فروخت نہ کرے جب تک کہ وہ دین میں خوب سمجھ نہ پیدا کر لے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- علاء بن عبدالرحمٰن بن یعقوب یہ باپ بیٹے اور دادا تینوں تابعی ہیں، علاء کے دادا اور یعقوب کبار تابعین میں سے ہیں، انہوں نے عمر بن خطاب رضی الله عنہ کو پایا ہے اور ان سے روایت بھی کی ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10658) (حسن الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: یعنی معاملات کے مسائل نہ سمجھ لے۔
۲؎: اور اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے مولف اس اثر کو اس باب میں لائے ہیں، ورنہ اس اثر کا اس باب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اوپر حدیث نمبر (۴۸۵) میں علاء بن عبدالرحمٰن کا ذکر ہے جنہوں نے اپنے والد کے واسطہ سے ابوہریرہ سے روایت کی ہے یہاں انہیں سب کا تعارف مقصود ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.