(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الله بن زيد بن اسلم، عن ابيه، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من نام عن وتره فليصل إذا اصبح " قال ابو عيسى: وهذا اصح من الحديث الاول، قال ابو عيسى: سمعت ابا داود السجزي يعني سليمان بن الاشعث، يقول: سالت احمد بن حنبل، عن عبد الرحمن بن زيد بن اسلم، فقال اخوه عبد الله: لا باس به، قال: وسمعت محمدا يذكر عن علي بن عبد الله، انه ضعف 72 عبد الرحمن بن زيد بن اسلم، وقال: عبد الله بن زيد بن اسلم ثقة، قال: وقد ذهب بعض اهل العلم بالكوفة إلى هذا الحديث، فقالوا: يوتر الرجل إذا ذكر وإن كان بعد ما طلعت الشمس، وبه يقول: سفيان الثوري.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ نَامَ عَنْ وِتْرِهِ فَلْيُصَلِّ إِذَا أَصْبَحَ " قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت أَبَا دَاوُدَ السِّجْزِيَّ يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ الْأَشْعَثِ، يَقُولُ: سَأَلْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، فَقَالَ أَخُوهُ عَبْدُ اللَّهِ: لَا بَأْسَ بِهِ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدًا يَذْكُرُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ ضَعَّفَ 72 عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، وقَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ثِقَةٌ، قَالَ: وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْكُوفَةِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالُوا: يُوتِرُ الرَّجُلُ إِذَا ذَكَرَ وَإِنْ كَانَ بَعْدَ مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ، وَبِهِ يَقُولُ: سفيان الثوري.
زید بن اسلم (مرسلاً) کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، اور جب صبح کو اٹھے تو پڑھ لے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۱؎، ۲- میں نے ابوداود سجزی یعنی سلیمان بن اشعث کو سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے احمد بن حنبل سے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: ان کے بھائی عبداللہ میں کوئی مضائقہ نہیں، ۳- میں نے محمد (محمد بن اسماعیل بخاری) کو ذکر کرتے سنا، وہ علی بن عبداللہ (ابن المدینی) سے روایت کر رہے تھے کہ انہوں نے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کو ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ (ان کے بھائی) عبداللہ بن زید بن اسلم ثقہ ہیں، ۴- کوفہ کے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آدمی وتر پڑھ لے جب اسے یاد آ جائے، گو سورج نکلنے کے بعد یاد آئے۔ یہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں ۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (صحیح) (شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ یہ خود مرسل روایت ہے)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ پہلی حدیث اگرچہ مرفوع ہے مگر عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے طریق سے ہے، اور وہ متکلم فیہ ہیں، جبکہ ان کے بھائی عبداللہ ثقہ ہیں، یعنی اس حدیث کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے۔
۲؎: اس حدیث سے وتر کی قضاء ثابت ہوتی ہے، اس کے قائل بہت سے صحابہ اور ائمہ ہیں، اس مسئلہ میں اگرچہ بہت سے اقوال ہیں مگر احتیاط کی بات یہی ہے کہ وتر اگر کسی وجہ سے رہ جائے تو قضاء کر لے، چاہے جب بھی کرے، کیونکہ وتر سنن و نوافل نمازوں کو طاق بنانے کے لیے مشروع ہوئی ہے، اور اگر کوئی مسافر ہو اور دن بھر میں کسی وقت بھی دو رکعت بھی سنت نہ پڑھ سکا ہو تو ایسے آدمی کو وتر کی ضرورت ہی نہیں، پھر عشاء کے بعد دو رکعت سنت پڑھ لے تب وتر پڑھے۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا ابن جريج، عن سليمان بن موسى، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا طلع الفجر فقد ذهب كل صلاة الليل والوتر، فاوتروا قبل طلوع الفجر " قال ابو عيسى: وسليمان بن موسى قد تفرد به على هذا اللفظ، وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " لا وتر بعد صلاة الصبح " وهو قول غير واحد من اهل العلم وبه يقول: الشافعي , واحمد , وإسحاق، لا يرون الوتر بعد صلاة الصبح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ فَقَدْ ذَهَبَ كُلُّ صَلَاةِ اللَّيْلِ وَالْوِتْرُ، فَأَوْتِرُوا قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ " قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى قَدْ تَفَرَّدَ بِهِ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ، وَرُوِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَا وِتْرَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ " وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَبِهِ يَقُولُ: الشافعي , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، لَا يَرَوْنَ الْوِتْرَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب فجر طلوع ہو گئی تو تہجد (قیام اللیل) اور وتر کا سارا وقت ختم ہو گیا، لہٰذا فجر کے طلوع ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سلیمان بن موسیٰ ان الفاظ کے ساتھ منفرد ہیں، ۲- نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”فجر کے بعد وتر نہیں“، ۳- بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے۔ اور شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں: یہ لوگ نماز فجر کے بعد وتر پڑھنے کو درست نہیں سمجھتے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: پچھلی حدیث کے حاشیہ میں گزرا کہ بہت سے صحابہ کرام وائمہ عظام وتر کی قضاء کے قائل ہیں، اور یہی راجح مسلک ہے، کیونکہ اگر وتر نہیں پڑھی تو سنن و نوافل کی جفت رکعتیں طاق نہیں ہو پائیں گی، واللہ اعلم۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2 / 154)، صحيح أبي داود (1290)