كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: جہاد کے احکام و مسائل 19. باب مَا جَاءَ فِي النَّهْىِ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ، وَالصِّبْيَانِ باب: عورتوں اور بچوں کے قتل کی ممانعت کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی غزوے میں ایک عورت مقتول پائی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مذمت کی اور عورتوں و بچوں کے قتل سے منع فرمایا ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں بریدہ، رباح، ان کو رباح بن ربیع بھی کہتے ہیں، اسود بن سریع ابن عباس اور صعب بن جثامہ سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ عورتوں اور بچوں کے قتل کو حرام سمجھتے ہیں، سفیان ثوری اور شافعی کا بھی یہی قول ہے، ۴- کچھ اہل علم نے رات میں ان پر چھاپہ مارنے کی اور اس میں عورتوں اور بچوں کے قتل کی رخصت دی ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ان دونوں نے رات میں چھاپہ مارنے کی رخصت دی ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 147 (3014)، و148 (3015)، صحیح مسلم/الجہاد 8 (1744)، سنن ابی داود/ الجہاد 121 (2668)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 30 (2841)، (تحفة الأشراف: 8668)، وط/الجہاد 3 (9)، سنن الدارمی/السیر 25 (2505) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عورت کے قتل کرنے کی حرمت پر سب کا اتفاق ہے، ہاں! اگر وہ شریک جنگ ہو کر لڑے تو ایسی صورت میں عورت کا قتل جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2841)
صعب بن جثامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے گھوڑوں نے مشرکین کی عورتوں اور بچوں کو روند ڈالا ہے، آپ نے فرمایا: ”وہ بھی اپنے آبا و اجداد کی قسم سے ہیں“ ۱؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 146 (3012)، صحیح مسلم/الجہاد 9 (1785)، سنن ابی داود/ الجہاد 121 (2672)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 30 (2839)، (تحفة الأشراف: 939)، و مسند احمد (4/38، 71، 72، 73) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اس حالت میں یہ سب اپنے بڑوں کے حکم میں تھے اور یہ مراد نہیں ہے کہ قصداً ان کا قتل کرنا مباح تھا، بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کی عورتوں اور بچوں کو پامال کئے بغیر ان کے بڑوں تک پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ بڑوں کے ساتھ مخلوط ہونے کی وجہ سے یہ سب مقتول ہوئے، ایسی صورت میں ان کا قتل جائز ہو گا۔ قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2839)
|