كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: جہاد کے احکام و مسائل 29. باب مَا جَاءَ فِي النُّزُولِ عَلَى الْحُكْمِ باب: دشمن کی مسلمان کے فیصلہ پر رضا مندی کا بیان۔
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ احزاب میں سعد بن معاذ رضی الله عنہ کو تیر لگا، کفار نے ان کی رگ اکحل یا رگ ابجل (بازو کی ایک رگ) کاٹ دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آگ سے داغا تو ان کا ہاتھ سوج گیا، لہٰذا آپ نے اسے چھوڑ دیا، پھر خون بہنے لگا، چنانچہ آپ نے دوبارہ داغا پھر ان کا ہاتھ سوج گیا، جب سعد بن معاذ رضی الله عنہ نے یہ دیکھا تو انہوں نے دعا کی: اے اللہ! میری جان اس وقت تک نہ نکالنا جب تک بنو قریظہ (کی ہلاکت اور ذلت سے) میری آنکھ ٹھنڈی نہ ہو جائے، پس ان کی رگ رک گئی اور خون کا ایک قطرہ بھی اس سے نہ ٹپکا، یہاں تک کہ بنو قریظہ سعد بن معاذ رضی الله عنہ کے حکم پر (قلعہ سے) نیچے اترے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کو بلایا انہوں نے آ کر فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں کو زندہ رکھا جائے جن سے مسلمان خدمت لیں ۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے ان کے بارے میں اللہ کے فیصلہ کے موافق فیصلہ کیا ہے، ان کی تعداد چار سو تھی، جب آپ ان کے قتل سے فارغ ہوئے تو سعد کی رگ کھل گئی اور وہ انتقال کر گئے“ ۲؎۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری اور عطیہ قرظی رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ (تحفة الأشراف: 2925) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی بنو قریظہ کی عورتیں مسلمانوں کی خدمت کے لیے ان میں تقسیم کر دی جائیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (5 / 38 - 39)
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مشرکین کے مردوں کو قتل کر دو اور ان کے لڑکوں میں سے جو بلوغت کی عمر کو نہ پہنچے ہوں انہیں کو چھوڑ دو“، «شرخ» وہ لڑکے ہیں جن کے زیر ناف کے بال نہ نکلے ہوں۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- حجاج بن ارطاۃ نے قتادہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 121 (2670)، (تحفة الأشراف: 4592)، و مسند احمد (5/12، 20) (ضعیف) (سند میں قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (3952 / التحقيق الثاني)، ضعيف أبي داود (259) // (571 / 2670)، ضعيف الجامع الصغير (1063) بلفظ: واستبقوا شرخهم //
عطیہ قرظی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں قریظہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، تو جس کے (زیر ناف کے) بال نکلے ہوئے تھے اسے قتل کر دیا جاتا اور جس کے نہیں نکلے ہوتے اسے چھوڑ دیا جاتا، چنانچہ میں ان لوگوں میں سے تھا جن کے بال نہیں نکلے تھے، لہٰذا مجھے چھوڑ دیا گیا۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اگر بلوغت اور عمر معلوم نہ ہو تو وہ لوگ (زیر ناف کے) بال نکلنے ہی کو بلوغت سمجھتے تھے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحدود 17 (4404)، سنن النسائی/الطلاق 20 (3460)، وقطع السارق 17 (4996)، سنن ابن ماجہ/الحدود 4 (2541)، (تحفة الأشراف: 9904)، و مسند احمد (4/310)، و 5/312) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2541)
|