سنن ترمذي
كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
19. باب مَا جَاءَ فِي النَّهْىِ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ، وَالصِّبْيَانِ
باب: عورتوں اور بچوں کے قتل کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1569
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ امْرَأَةً وُجِدَتْ فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْتُولَةً، فَأَنْكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ، " وَنَهَى عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ "، وَفِي الْبَاب، عَنْ بُرَيْدَةَ، وَرَبَاحٍ وَيُقَالُ: رِيَاحُ بْنُ الرَّبِيعِ، وَالْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيعٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَالصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، كَرِهُوا قَتْلَ النِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْبَيَاتِ، وَقَتْلِ النِّسَاءِ فِيهِمْ وَالْوِلْدَانِ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَرَخَّصَا فِي الْبَيَاتِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی غزوے میں ایک عورت مقتول پائی گئی، تو آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مذمت کی اور عورتوں و بچوں کے قتل سے منع فرمایا
۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں بریدہ، رباح، ان کو رباح بن ربیع بھی کہتے ہیں، اسود بن سریع ابن عباس اور صعب بن جثامہ سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ عورتوں اور بچوں کے قتل کو حرام سمجھتے ہیں، سفیان ثوری اور شافعی کا بھی یہی قول ہے،
۴- کچھ اہل علم نے رات میں ان پر چھاپہ مارنے کی اور اس میں عورتوں اور بچوں کے قتل کی رخصت دی ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ان دونوں نے رات میں چھاپہ مارنے کی رخصت دی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 147 (3014)، و148 (3015)، صحیح مسلم/الجہاد 8 (1744)، سنن ابی داود/ الجہاد 121 (2668)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 30 (2841)، (تحفة الأشراف: 8668)، وط/الجہاد 3 (9)، سنن الدارمی/السیر 25 (2505) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عورت کے قتل کرنے کی حرمت پر سب کا اتفاق ہے، ہاں! اگر وہ شریک جنگ ہو کر لڑے تو ایسی صورت میں عورت کا قتل جائز ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2841)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1569 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1569
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
عورت کے قتل کرنے کی حرمت پرسب کا اتفاق ہے،
ہاں! اگر وہ شریک جنگ ہوکر لڑے تو ایسی صورت میں عورت کا قتل جائز ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1569
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2841
´دشمن پر حملہ کرنے، شبخون (رات میں چھاپہ) مارنے، ان کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کے احکام کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں ایک عورت کو دیکھا جسے قتل کر دیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2841]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا منع ہے۔
اسی طرح بوڑھے راہب اور دوسرے ایسے افراد جو جنگ میں شریک نہیں ہوتے انھیں بھی قتل کرنا درست نہیں۔
(6)
جب کوئی غلط کام سامنے آئے تو اس سے فوراً روک دینا چاہیے تاکہ دوسروں کو بھی معلوم ہوجائے اور وہ اس غلطی کے ارتکاب سے بچیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2841
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4548
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ کسی غزوہ (جنگ، لڑائی) میں ایک عورت مقتولہ پائی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4548]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ اسلام کی خصوصیات اور امتیازات میں سے ہے کہ جس دور میں عورتوں،
بچوں اور بوڑھوں کو بھی قتل و غارت کا نشانہ بنایا جاتا تھا،
اس دور میں ان کے قتل کرنے سے منع قرار دیا،
بشرطیکہ وہ براہ راست جنگ میں ملوث نہ ہوں،
اس پر تمام ائمہ اور فقہاء کا اتفاق ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4548
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3014
3014. حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ نبی کریم ﷺ کے کسی غزوے میں ایک عورت مقتول پائی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے (دوران جنگ میں) عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3014]
حدیث حاشیہ:
جنگ میں قصدا عورتوں یا بچوں کا مارنا اسلام میں ناپسندیدہ کام ہے۔
صد افسوس کہ یہ نوٹ ایسے وقت میں لکھ رہا ہوں کہ ملک بنگال مشرقی پاکستان میں خود مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان مرد‘ عورت‘ بچے بکریوں کی طرح ذبح کئے جا رہے ہیں۔
بنگالیوں اور بہاریوں اور پنجابیوں کے ناموں پر مسلمان اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے اسلامی بھائیوں کی خون ریزی کر رہے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3014
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3015
3015. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی بعض لڑائیوں میں ایک عورت قتل شدہ پائی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3015]
حدیث حاشیہ:
ابو اسامہ کا یہ جواب امام بخاری ؒ کی روایت میں مذکور نہیں ہے، لیکن اسحاق بن راہویہ نے اپنی مسند میں یہ حدیث نکالی اس میں صاف مذکور ہے کہ ابو اسامہ نے اقرار کیا ہاں! (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3015
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3015
3015. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی بعض لڑائیوں میں ایک عورت قتل شدہ پائی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3015]
حدیث حاشیہ: 1۔
دوران جنگ میں بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے کے متعلق عام طور پر دوموقف بیا ن کیے جاتےہیں:
۔
انھیں قتل کرنا مطلق طور پر جائز ہے۔
۔
انھیں قتل کرنا مطلق طور پر ناجائز ہے۔
لیکن امام بخاری ؒ کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں کچھ تفصیل ہے۔
وہ اس طرح کہ تین صورتوں میں انھیں قتل کیا جاسکتا ہے:
الف۔
جب وہ خود جنگ میں شریک ہوں اور باقاعدہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خم ٹھونک کر میدان میں آجائیں۔
ب۔
کفار ومشرکین انھیں بطور ڈھال استعمال کریں، یعنی دوران جنگ میں انھیں آگے کردیں۔
ج۔
شب خون مارتے وقت لاشعوری طور پرمارے جائیں۔
ان تین صورتوں کے علاوہ انھیں قتل کرنا جائز نہیں۔
2۔
حافظ ابن حجر ؒنے اس کی وجہ ان الفاظ میں بیان کی ہے:
عورتیں اس لیے کہ کمزور ہیں اور میدان جنگ میں نہیں لڑ سکتیں اور بچے اس لیے کہ وہ فعل کفر سے قاصر ہیں کیونکہ کفر ہی قتال کا باعث ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 179/6) هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3015