كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: جہاد کے احکام و مسائل 8. باب مَا جَاءَ مَنْ يُعْطَى الْفَيْءُ باب: مال غنیمت کن لوگوں کے درمیان تقسیم ہو گا۔
یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ بن عامر حروری نے ابن عباس رضی الله عنہما کے پاس یہ سوال لکھ کر بھیجا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو ساتھ لے کر جہاد کرتے تھے؟ اور کیا آپ ان کے لیے مال غنیمت سے حصہ بھی مقرر فرماتے تھے؟ ابن عباس رضی الله عنہما نے ان کو جواب میں لکھا: تم نے میرے پاس یہ سوال لکھا ہے: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو ساتھ لے کر جہاد کرتے تھے؟ ۱؎ ہاں، آپ ان کے ہمراہ جہاد کرتے تھے، وہ بیماروں کا علاج کرتی تھیں اور مال غنیمت سے ان کو (بطور انعام) کچھ دیا جاتا تھا، رہ گئی حصہ کی بات تو آپ نے ان کے لیے حصہ نہیں مقرر کیا۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس اور ام عطیہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری اور شافعی کا بھی یہی قول ہے، بعض لوگ کہتے ہیں: عورت اور بچہ کو بھی حصہ دیا جائے گا، اوزاعی کا یہی قول ہے، ۴- اوزاعی کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر میں بچوں کو حصہ دیا اور مسلمانوں کے امراء نے ہر اس مولود کے لیے حصہ مقرر کیا جو دشمنوں کی سر زمین میں پیدا ہوا ہو، اوزاعی کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیر میں عورتوں کو حصہ دیا اور آپ کے بعد مسلمانوں نے اسی پر عمل کیا ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجہاد 48 (1812)، سنن ابی داود/ الجہاد 152 (2727)، سنن النسائی/الفیٔ (4138)، (تحفة الأشراف: 6557)، و مسند احمد (1/248، 294، 308) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کے دور میں باہم خط و کتابت ہوا کرتی تھی اور اس سے جواب نامہ کا اسلوب تحریر بھی معلوم ہوا کہ پہلے آنے والے خط کی عبارت کا بالاختصار تذکرہ اور پھر اس کا جواب۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2438)
|