عن يونس، عن الزهري، اخبرني السائب بن يزيد، ان شريحا الحضرمي، ذكر عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ذاك رجل لا يتوسد القرآن".عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّ شُرَيْحًا الْحَضْرَمِيَّ، ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " ذَاكَ رَجُلٌ لا يَتَوَسَّدُ الْقُرْآنَ".
سائب بن یزید نے بیان کیا کہ بے شک شریح حضرمی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ایسا آدمی ہے جوقرآن کو تکیہ نہیں بناتا۔
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 426، مسند احمد: 426، ابن سعد: 3/363، سنن نسائي: 1783۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح الإسناد‘‘ قرار دیا ہے۔»
عن ابن لهيعة، عن ابي الزبير، عن جابر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من الليل ساعة لا يوافقها عبد مسلم يسال الله خيرا إلا اعطيه، وهي كل ليلة".عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مِنَ اللَّيْلِ سَاعَةٌ لا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللَّهَ خَيْرًا إِلا أُعْطِيَهُ، وَهِيَ كُلَّ لَيْلَةٍ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات میں ایک گھڑی ہے، جو مسلمان بندہ بھی خیر و بھلائی کا سوال کرتے ہوئے اسے پا لیتا ہے، اسے ضرور عطا کیا جاتا ہے، اور وہ (گھڑی)ہر رات ہوتی ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 757، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2561، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14578، 14768، 14974، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1911، 2281، والطبراني فى «الصغير» برقم: 848 الزهد، ابن مبارك: 428، 4/449، صحیح مسلم: 5/36 (166،167)، مسند احمد: 3/313، 331، 348۔»
عن عوف، عن المهاجر ابي مخلد، عن ابي العالية، حدثني ابو مسلم، قال: سالت ابا ذر: اي قيام الليل افضل؟ قال ابو ذر: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني، فقال:" نصف الليل او جوف الليل"، شك عوف، وقليل فاعله.عَنْ عَوْفٍ، عَنِ الْمُهَاجِرِ أَبِي مَخْلَدٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، حَدَّثَنِي أَبُو مُسْلِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا ذَرٍّ: أَيُّ قِيَامِ اللَّيْلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ أَبُو ذَرٍّ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ:" نِصْفُ اللَّيْلِ أَوْ جَوْفُ اللَّيْلِ"، شَكَّ عَوْفٌ، وَقَلِيلٌ فَاعِلُهُ.
ابومسلم نے کہا کہ میں نے سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ رات کا کون سا قیام افضل ہے؟ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا، جیسا کہ تو نے مجھ سے پوچھا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کا نصف کا درمیان۔ عوف (راوی)کو شک ہے اور اسے کرنے والے کم ہیں۔“
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 428، مسند احمد: 21555، صحیح ابن حبان (الموارد): 169۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح لغیرہ‘‘ قرار دیا ہے۔»
عن عبيد الله بن عمر، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لولا ان اشق على امتي لامرت بالسواك عند كل وضوء، ولاخرت العشاء إلى نصف الليل او ثلث الليل، إنه إذا مضى نصف الليل او ثلث الليل، ذكر نزوله، فقال: من ذا الذي يدعوني فاستجيب له، من ذا الذي يسالني فاعطيه، من ذا الذي يستغفرني فاغفر له حتى تطلع الشمس".عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَوْلا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لأَمَرْتُ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ وُضُوءٍ، وَلأَخَّرْتُ الْعِشَاءَ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ أَوْ ثُلُثِ اللَّيْلِ، إِنَّهُ إِذَا مَضَى نِصْفُ اللَّيْلِ أَوْ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ذَكَرَ نُزُولَهُ، فَقَالَ: مَنْ ذَا الَّذِي يَدْعُونِي فَأَسْتُجِيبُ لَهُ، مَنْ ذَا الَّذِي يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ، مَنْ ذَا الَّذِي يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اپنی امت پر مشقت نہ سمجھتا تو ہر وضو کے وقت مسواک کاضرور انہیں حکم دیتا اور عشاء کی نماز کو نصف رات یا تہائی رات تک موخر کرتا۔ بات یہ ہے کہ جب نصف رات یا رات کا تہائی حصہ گزر جاتا ہے۔ تو (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے)اللہ عزوجل کے نزول کا ذکر فرمایا (اور کہا کہ)وہ فرماتا ہے ”کون ہے جومجھے پکارے میں اس کی دعا قبول کروں گا۔“ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے عطا کروں گا کون ہے جو مجھ اسے استغفار کرے، میں اسے بخشش دوں گا، یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 159، 160، 164، 1934، 6433، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 226، 226، 227، 229، 230، 231، 232، 245، ومالك فى «الموطأ» برقم: 58، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2، 3، 151، 152، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 360، 1041، 1043، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 84، 85، 116، 145، 146، 855، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 91، 103، 173، 174، 175، 931، وأبو داود فى «سننه» برقم: 106، 108، 110، والترمذي فى «جامعه» برقم: 31، والدارمي فى «مسنده» برقم: 720، 731، 735، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 285، 285 م، 413، 430، 435، 459، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 214، 217، 218، والدارقطني فى «سننه» برقم: 271، 283، وأحمد فى «مسنده» برقم: 407، 410، 411، والحميدي فى «مسنده» برقم: 35، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 302، 3836، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 515، 651، 755 الزهد، ابن مبارك: 437، صحیح مسلم: 3/132 (42)، سنن ابن ماجة: 691، 287، مسند احمد (الفتح الرباني)1/294، مستدرك حاکم: 1/146، مسند دارمي: 1/140، صحیح ابن حبان: 2/288، سنن ابو داؤد: 1/69، سنن الکبریٰ بیهقي: 1/184، 185، تاریخ بغداد: 9/346، موطا مالك:1/133، 134، سنن ترمذي: 1/101۔»
عن الحسن بن ذكوان، عن سليمان الاحول، عن عطاء، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من بات طاهرا، بات في شعاره ملك، فلا يستيقظ ساعة من الليل، إلا قال الملك: اللهم اغفر لعبدك فلان ؛ فإنه بات طاهرا".عَنِ الْحَسنِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَحْوَلِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ بَاتَ طَاهِرًا، بَاتَ فِي شِعَارِهِ مَلَكٌ، فَلا يَسْتَيْقِظُ سَاعَةً مِنَ اللَّيْلِ، إِلا قَالَ الْمَلَكُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِكَ فُلانٍ ؛ فَإِنَّهُ بَاتَ طَاهِرًا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے باوضو ہو کر رات گزاری تو اس کے بدن سے لگے ہوئے کپڑے میں فرشتہ رات بسر کرتا ہے، یہ رات کی جس گھڑی بھی بیدار ہوتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے: یا اللہ! اپنے فلاں بندے کو بخش دے، بے شک اس نے باوضو ہو کر رات گزاری ہے۔“
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 441، صحیح ابن حبان: (الموارد)، سلسة الصحیحة: 2539۔»
عن سليمان التيمي، ان رجلا حدثه، قال: قيل لعبيد مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم: هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يامر بصلاة غير المكتوبة؟ قال:" بين المغرب والعشاء".عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، أَنَّ رَجُلا حَدَّثَهُ، قَالَ: قِيلَ لِعُبَيْدٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بِصَلاةٍ غَيْرِ الْمَكْتُوبَةِ؟ قَالَ:" بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ".
سلیمان تیمی رحمہ اللہ نے کہا کہ ایک آدمی نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام عبید سے کہا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کے علاوہ کسی نماز کا حکم دیتے تھے؟ کہا: ہاں، مغرب اور عشاء کے درمیان۔
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 444، مسند احمد: 23652، مجمع الزوائد، هیثمي: 2/229، اور فرمایا کہ اسے احمد اور طبرانی (کبیر)نے روایت کیا ہے اور اس کے تمام طرق کا دارومدار ایک آدمی پر ہے جس کا نام نہیں لیا گیا اور احمد کے باقی راوی صحیح کے راوی ہیں۔ شیخ شعیب نے بھی اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔»
عن مالك بن مغول، عن مقاتل بن بشير العجلي، عن شريح بن هانئ، قال: سالت عائشة رضي الله عنها، عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت: " لم يكن يلزمه للصلاة شيء احرى ان يؤخرها إذا كان على حديث من صلاة العشاء، وما صلاها قط، فدخل علي إلا صلى بعدها اربعا او ستا، وما رايته متقيا الارض بشيء قط، إلا اني اذكر يوم مطر فإنا بسطنا تحته بساطا او شيئا ذكره، يعني نطعا، فرآني انظر إلى خرق فيه ينبع منه الماء".عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ بَشِيرٍ الْعِجْلِيِّ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: " لَمْ يَكُنْ يَلْزَمُهُ لِلصَّلاةِ شَيْءٌ أَحْرَى أَنْ يُؤَخِّرَهَا إِذَا كَانَ عَلَى حَدِيثٍ مِنْ صَلاةِ الْعِشَاءِ، وَمَا صَلاهَا قَطُّ، فَدَخَلَ عَلَيَّ إِلا صَلَّى بَعْدَهَا أَرْبَعًا أَوْ سِتًّا، وَمَا رَأَيْتُهُ مُتَّقِيًا الأَرْضَ بِشَيْءٍ قَطُّ، إِلا أَنِّي أَذْكُرُ يَوْمَ مَطَرٍ فَإِنَّا بَسَطْنَا تَحْتَهُ بِسَاطًا أَوْ شَيْئًا ذَكَرَهُ، يَعْنِي نِطَعًا، فَرَآنِي أَنْظُرُ إِلَى خَرْقٍ فِيهِ يَنْبُعُ مِنْهُ الْمَاءُ".
شریح بن ھانی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں سوال کیا؟ تو انہوں نے فرمایا: نمازوں میں سے، عشاء کی نماز سے زیادہ، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بات چیت میں ہوتے، کسی نمازکو مؤخر کرنے کے زیادہ لائق نہ تھے اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ (نماز عشاء)پڑھی اور پھر میرے پاس تشریف لائے تو چار یا چھ رکعتیں ضرور پڑھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین سے کبھی کسی چیز کے ساتھ بچاؤ اختیار نہ کرتے، البتہ مجھے ایک بارش والا دن یقینا یاد ہے، کہ بے شک ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے ایک چٹائی بچھا دی یا کوئی اور چیز جس کا (راوی)نے ذکر کیا، یعنی چرمی فرش، گویا کہ میں اس میں سوراخ کو دیکھ رہی ہوں، جس سے پانی نکل رہا ہے۔
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 451، مسند احمد: 24305۔ شیخ شعیب نے اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔»
سیدنا سعید بن منذر انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں تین راتوں میں قرآن پڑھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو طاقت رکھتا ہے (تو پڑھ لے)۔“ کہا کہ پھر وہ ایسے ہی پڑھا کرتے تھے، یہاں تک کہ فوت ہو گئے۔
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 452، سلسة الصحیحة: 1512۔»
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی ایک مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لے۔“