(حديث مرفوع) حدثنا حدثنا عفان، حدثنا جعفر بن سليمان، حدثنا الجعد ابو عثمان، قال: سمعت ابا رجاء العطاردي، قال: سمعت ابن عباس، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما يرويه عن ربه عز وجل , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن ربكم رحيم: من هم بحسنة فلم يعملها، كتبت له حسنة، فإن عملها، كتبت عشرا إلى سبع مائة إلى اضعاف كثيرة، ومن هم بسيئة فلم يعملها، كتبت له حسنة، فإن عملها، كتبت واحدة، او يمحوها. ولا يهلك على الله إلا هالك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا الْجَعْدُ أَبُو عُثْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرْوِيهِ عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ رَبَّكُمْ رَحِيمٌ: مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا، كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً، فَإِنْ عَمِلَهَا، كُتِبَتْ عَشْرًا إِلَى سَبْعِ مِائَةٍ إِلَى أَضْعَافٍ كَثِيرَةٍ، وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا، كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً، فَإِنْ عَمِلَهَا، كُتِبَتْ وَاحِدَةً، أَوْ يَمْحُوهَا. وَلَا يَهْلِكُ عَلَى اللَّهِ إِلَّا هَالِكٌ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب عز و جل سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا رب بہت رحم والا ہے، پس جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا، لیکن اس پر عمل نہ کر سکا تب بھی اس کے لئے ایک مکمل نیکی لکھی جاتی ہے، اور اگر اس نے ارادے کے بعد عمل بھی کر لیا تو اس کے لئے (ایک کے بدلے) دس گنے سے سات سو گنے تک اس سے بھی زیادہ نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اور جس نے برائی کا ارادہ کیا اور عمل نہیں کیا تب بھی اس کے لئے ایک نیکی لکھی جائے گی، اور اگر اس نے ارادے کے بعد عمل بھی کر لیا تو صرف ایک برائی لکھی جائے گی، الله تعالیٰ اسے بھی مٹا دے گا اور اللہ کے پاس کوئی ہلاک و برباد نہ ہوگا سوائے اس کے جو خود ہلاکت میں پڑ جائے (یعنی جس کی قسمت میں ہی ہلاکت و بربادی ہو صرف وہی ہلاک ہوگا)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2828]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6491]، [مسلم 131]، [أحمد 279/1]، [طبراني 161/12، 12760]
وضاحت: (تشریح حدیث 2820) اس حدیث میں الله کی رحمت و بندوں سے محبت کا ذکر ہے، اگر نیکی کا ارادہ کر لیا اور عمل نہیں کیا تب بھی ایک نیکی کا ثواب مل گیا، اور اگر عمل بھی کر لیا تو خلوصِ وللّٰہیت، محبت و چاہت کے مطابق دس سے سات سو گنے یا اس سے بھی زیادہ نیکیاں کرنے کا ثواب ہی ثواب، سبحان الله کیا شانِ رحمت ہے، پھر یہی نہیں، اگر برائی کا ارادہ کرے پھر برائی کا کام نہ کرے تب بھی ایک نیکی کا ثواب۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ برائی کے ارادے سے مراد یہ ہے کہ دل دماغ میں برائی کرنے کی بات آئے اور نکل جائے، اس کا مصمم ارادہ نہ کرے، نہ دل میں بری بات گھر کرے، تب اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا، لیکن اگر ذہن میں بٹھائے رکھے، اس کی پلاننگ کرے، پھر کسی خارجی سبب سے گناہ نہ کر پائے تو اس کا گناہ ضرور لکھا جائے گا۔ «واللّٰه أعلم وعلمه أتم.»
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک شخص کسی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن ان کے جیسا عمل نہیں کر سکتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوذر! تم اسی کے ساتھ ہوگے جس سے محبت کی ہے“، میں نے پھر عرض کیا: میں تو الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں؟ فرمایا: ”تم اسی کے ساتھ ہوگے جس سے محبت کی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2829]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 5126]، [ابن حبان 556]، [موارد الظمآن 2506، وله شاهد عند البخاري 6168] و [مسلم 2640] و [ترمذي 2385] و [أبي يعلی 2758، عن ابن مسعود و انس و صفوان بن عسال رضي الله عنهم بلفظ: «اَلْمَرْءَ مَعَ مَنْ أَحَبَّ» يعني آدمي جس سے محبت كرے اس كے ساته هوگا۔]
وضاحت: (تشریح حدیث 2821) اللہ تعالیٰ سے محبت اساس اور اصل ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین و ائمہ و فقہاء اور نیک لوگوں کی محبت اسی محبتِ الٰہی کے تابع ہیں، آدمی اگر ان سے محبت رکھے تو انہیں کے ساتھ آخرت و قیامت کے دن ہوگا، اور اگر اشرار و شیاطین و فتنہ و فساد برپا کرنے والوں، عاصی و گنہگار، گانے بجانے والے ہیروز سے اگر کوئی لگاؤ رکھے گا اور امورِ دینیہ سے غفلت برتے گا تو قیامت میں اس کا حشر انہیں کے ساتھ ہوگا۔ الله تعالیٰ نیک لوگوں کی صحبت اور ان کی محبت ہمیں نصیب فرمائے، آمین۔
(حديث قدسي) اخبرنا اخبرنا ابو النعمان، حدثنا مهدي، حدثنا غيلان، عن شهر بن حوشب، عن معدي كرب، عن ابي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم يرويه عن ربه , قال:"يا ابن آدم، إنك ما دعوتني ورجوتني، غفرت لك ما كان فيك. ابن آدم، إنك إن تلقاني بقراب الارض خطايا، لقيتك بقرابها مغفرة بعد ان لا تشرك بي شيئا، ابن آدم، إنك إن تذنب حتى يبلغ ذنبك عنان السماء، ثم تستغفرني اغفر لك ولا ابالي".(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ مَعْدِي كَرِبَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْوِيهِ عَنْ رَبِّهِ , قَالَ:"يَا ابْنَ آدَمَ، إِنَّكَ مَا دَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي، غَفَرْتُ لَكَ مَا كَانَ فِيكَ. ابْنَ آدَمَ، إِنَّكَ إِنْ تَلْقَانِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا، لَقِيتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً بَعْدَ أَنْ لَا تُشْرِكَ بِي شَيْئًا، ابْنَ آدَمَ، إِنَّكَ إِنْ تُذْنِبْ حَتَّى يَبْلُغَ ذَنْبُكَ عَنَانَ السَّمَاءِ، ثُمَّ تَسْتَغْفِرُنِي أَغْفِرْ لَكَ وَلَا أُبَالِي".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: ”الله تعالیٰ نے فرمایا: اے انسان! جب تک تو مجھ کو پکارتا رہے گا اور مجھ سے (اچھی) امید رکھے گا تو میں تیرے اس سے پہلے کے گناہ معاف کر دوں گا۔ اے انسان! اگر تو زمین بھر گناہ لے کر میرے پاس آیا تو میں بھی تجھ سے زمین بر بخشش کے ساتھ ملاقات کروں گا بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا، اے آدم کے بیٹے! اگر تو اتنے گناہ کرے کہ تیرے گناہ آسمان کی بلندی کو چھونے لگیں پھر تو مجھ سے مغفرت و بخشش طلب کرے تب بھی میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کچھ پرواہ نہ ہوگی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2830]» اس روایت کی سند حسن ہے اور یہ حدیثِ قدسی ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 3534]، [أحمد 167/5، 172، وبعض منه فى مسلم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2822) طاعات و نیکیوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا تقرب کوئی حاصل کرے تو الله تعالیٰ بھی رحمت و محبت، بخشش و مغفرت کے ساتھ اس سے قریب ہو جاتا ہے، یہ الله تعالیٰ کا بڑا فضل و کرم ہے، اور ڈھیر سارے گناہوں کے باوجود اگر انسان سچے دل سے توبہ و استغفار کرے تو الله تعالیٰ نہ صرف اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے بلکہ اس کے لئے یہ خوشخبری ہے: «التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ» لیکن اس کا مطلب یہ نہیں انسان گناہوں کو اپنا شیوہ بنا لے، کیونکہ ایسا شخص توبہ اور انابہ الى الله کی توفیق سے محروم رہتا ہے، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ انسان سے نادانی اور غفلت میں کتنے ہی گناہ سرزد ہو جائیں حتیٰ کہ اس کے گناہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جائیں تو بھی اس کو اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا چاہیے، بلکہ خلوصِ دل سے توبہ کرنی چاہے۔ « ﴿وَيَتُوبَ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾[الأحزاب: 73] » ترجمہ: ”اور اللہ تعالیٰ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کی توبہ قبول کر لیتا ہے، اور اللہ تو بہت بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے۔ “
سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور بدی (گناہ) کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو دل میں کھٹکے اور لوگوں کا اس پر مطلع ہونا تمہیں ناگوار گذرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه، [مكتبه الشامله نمبر: 2831]» اس روایت کی سند میں انقطاع کے سبب ضعف ہے، لیکن یہ حدیث صحیح سند سے بھی مروی ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2553]، [ابن حبان 397]، [معجم الصحابة لابن قانع 1138]، [المعرفة و التاريخ للفسوي 339/2]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه
اس سند سے بھی سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مذکور بالا حدیث مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2832]» ترجمہ اور تخریج وہی ہے جو اوپر مذکور ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2823 سے 2825) اسلام میں حسنِ اخلاق کی بڑی فضیلت ہے، یہاں نیکی کی تعریف میں حسنِ اخلاق کا ذکر کر کے بڑے بلیغ انداز میں اچھے کاموں کی تعلیم دی دی گئی ہے، اور خندہ پیشانی و مسکراہٹ بھرے چہرے سے ملنا، لوگوں کو تکلیف نہ پہنچانا بلکہ ان کو آرام و سہولت پہنچانے کی سعی کرنا، لوگوں کے کام آنا اور نیکی کے کاموں میں تعاون کرنا، کشادہ دستی سے کام لینا، الله اور رسول کی اطاعت و پیروی، یہ سب نیکیاں اور خوبیاں ہیں جو انسان کی زندگی میں نکھار پیدا کرتی ہیں، اور برائی و بدی کی تعریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ برائی یہ ہے کہ ایک تو انسان کے دل میں کھٹک پیدا ہو، یعنی اطمینان و سرور کے بجائے قلق و اضطراب اور گھبراہٹ ہو، دوسرے یہ کہ کسی کا اس سے باخبر ہونا وہ پسند نہ کرے یہ برائی کی بہت جامع تعریف ہے، جس میں صغیرہ کبیرہ سب گناه آجاتے ہیں۔ اس حدیث میں اس امر پر بھی دلیل ہے کہ انسانی فطرت (اگر برے ماحول اور صحبتِ بد کی وجہ سے مسخ نہ ہوئی ہو تو) انسان کی صحیح بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور برائیوں سے روکتی ہے۔ (شرح رياض الصالحین، حافظ صلاح الدین حفظہ الله)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مكرر سابقه
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ سے ڈرو جہاں کہیں بھی ہو، اور برائی سرزد ہونے کے بعد نیکی کرو جو برائی کو مٹا دے گی، اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے ملو۔“
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات لكن ابن أبي حاتم، [مكتبه الشامله نمبر: 2833]» اس حدیث کے رجال ثقات ہیں۔ دیکھئے: [ترمذي 1988، وقال: حسن صحيح]، [أحمد 153/5]، [طبراني 145/20، 395]، [القضاعي 652]، [شعب الايمان 8026]
وضاحت: (تشریح حدیث 2825) اس حدیث میں تقویٰ کی تعلیم ہے اور برائی کے سرزد ہونے کے بعد بطورِ کفاره نیکی کرنے کا حکم اور حسنِ اخلاق کی تعلیم ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات لكن ابن أبي حاتم
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل محمد بن عجلان، [مكتبه الشامله نمبر: 2834]» اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4682]، [ترمذي 1162]، [ابن حبان 479]، [موارد الظمآن 1926، وله شواهد عندهم عن أبى الدرداء]
وضاحت: (تشریح حدیث 2826) اس حدیث میں ایمان اور حسنِ اخلاق کے درمیان تلازم کا بیان ہے، یعنی جو اخلاق میں جتنا کامل ہوگا ایمان میں بھی اتنا ہی کامل ہوگا، گویا کمالِ ایمان کے لئے حسنِ اخلاق میں کمال ضروری ہے۔ ابوداؤد اور ترمذی میں یہ اضافہ ہے کہ تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں سب سے اچھا ہو، اور میں اپنے اہل کے لئے تم سب سے اچھا ہوں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل محمد بن عجلان
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر وہ جو کچھ عطا فرماتا ہے سختی پر عطا نہیں فرماتا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح الحسن سمع عبد الله بن مغفل، [مكتبه الشامله نمبر: 2835]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4807]، [الأدب المفرد 472]، [ابن أبى شيبه 5363]، [أحمد 87/4، وله شاهد]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح الحسن سمع عبد الله بن مغفل
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک الله تعالیٰ ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2836]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6024]، [مسلم 2165]، [ابن ماجه 3689]، [أبويعلی 4421]، [ابن حبان 549]، [الحميدي 250]
وضاحت: (تشریح احادیث 2827 سے 2829) نرمی، ملائمت اور رحم دلی ایسے اوصاف ہیں کہ آدمی ہر دل عزیز اور مقبول بن جاتا ہے اور عنداللہ بھی محبوب ہوتا ہے، اور نرمی پر جو اجر و ثواب اور عطیاتِ ربانی کا نزول ہوتا ہے وہ سختی و سنگدلی پر نہیں، اور جو سختی و سنگدلی اپناتا ہے وہ لوگوں کی نظر میں ناپسندیدہ اور اللہ کے نزدیک بھی ناپسندیدہ ہوتا ہے۔ البتہ دین کے معاملات میں نرمی اور مجاملت سخت ناپسندیدہ ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جس کی دو پیاریاں (آنکھیں) چھین لوں اور وہ صبر کرے اور ثواب چاہے، میں اس کے لئے جنت کے سوا کسی ثواب پر راضی نہ ہوں گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2837]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2401، وقال: حسن صحيح]، [ابن حبان 2932، وله شاهد عند البخاري 5653]، [أبويعلی 3711، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2829) صبر و شکر کا ثواب جنّت ہے، وہ شخص جس کی بنائی جاتی رہے پھر وہ صبر کرے ان کے لئے بشارت ہے، وہ اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھیں یقیناً انہیں جنّت ملے گی، سنّت کے شیدائی، اللہ و رسول کے مطیع و فرماں بردار مفتیٔ عام المملكة سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کی بیس سال کی عمر میں جب بینائی ختم ہوگئی تو کوئی جزع فزع نہیں کی، صبر و شکر سے کام لیا اور خود لکھا: پہلے روشنی کم ہوئی پھر بالکل جاتی رہی، فالحمد للہ علی ذلک، اللہ سے امید ہے یقيناً انہیں جنّت میں داخل کرے گا۔ راقمِ حقیر و پرتقصیر سے جناب کو خصوصی محبت و لگاؤ تھا، آخری بار جب عمرے کے لئے روانہ ہوئے تو حسبِ عادت ناچیز نے درخواست کی کہ دعا میں یاد رکھئے گا، فرمایا: اور تم بھی یاد رکھنا۔ یہ پہلا موقع تھا جو آپ نے ناچیز سے ایسی طلب کی، اللہ کی مشیت چند ہفتے بعد ہی وہ اللہ سے جا ملے، اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے خصوصی اوقات میں ماں باپ کے ساتھ ان کی یاد دعا میں ذہن سے نہیں اترتی، ابھی دو ماہ قبل سماحۃ الشیخ اور فضیلۃ الشیخ محمدصالح العثیمین رحمہما اللہ کو خواب میں دیکھا کہ ایک دوسرے کے بال مونڈ رہے ہیں، اس عجیب خواب پر حیرانی تھی، ایک تعبیر دان عالم سے ذکر کیا تو بتایا کہ دونوں نجوم الله کی رحمت کے سایے تلے امن و امان میں ہیں، کیونکہ الله تعالیٰ فرماتا ہے: « ﴿مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ﴾[الفتح: 27] » اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «رَحِمَ اللّٰهُ الْمُحَلِّقِيْنَ رَؤُوْسَهُمْ ..... إلخ.» ناچیز عاصی اور گنہگار ہے لیکن الله تعالیٰ سے دعا و التجا ہے: «أَنْ يَجْمَعَنَا اللّٰهُ وَإِيَّاهُمْ فِيْ دَارِ كَرَامَتِهِ مَعَ الصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ تَحْتَ لِوَاءِ سَيِّدِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنِ.» آمین۔