(حديث قدسي) اخبرنا اخبرنا ابو النعمان، حدثنا مهدي، حدثنا غيلان، عن شهر بن حوشب، عن معدي كرب، عن ابي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم يرويه عن ربه , قال:"يا ابن آدم، إنك ما دعوتني ورجوتني، غفرت لك ما كان فيك. ابن آدم، إنك إن تلقاني بقراب الارض خطايا، لقيتك بقرابها مغفرة بعد ان لا تشرك بي شيئا، ابن آدم، إنك إن تذنب حتى يبلغ ذنبك عنان السماء، ثم تستغفرني اغفر لك ولا ابالي".(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ مَعْدِي كَرِبَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْوِيهِ عَنْ رَبِّهِ , قَالَ:"يَا ابْنَ آدَمَ، إِنَّكَ مَا دَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي، غَفَرْتُ لَكَ مَا كَانَ فِيكَ. ابْنَ آدَمَ، إِنَّكَ إِنْ تَلْقَانِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا، لَقِيتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً بَعْدَ أَنْ لَا تُشْرِكَ بِي شَيْئًا، ابْنَ آدَمَ، إِنَّكَ إِنْ تُذْنِبْ حَتَّى يَبْلُغَ ذَنْبُكَ عَنَانَ السَّمَاءِ، ثُمَّ تَسْتَغْفِرُنِي أَغْفِرْ لَكَ وَلَا أُبَالِي".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: ”الله تعالیٰ نے فرمایا: اے انسان! جب تک تو مجھ کو پکارتا رہے گا اور مجھ سے (اچھی) امید رکھے گا تو میں تیرے اس سے پہلے کے گناہ معاف کر دوں گا۔ اے انسان! اگر تو زمین بھر گناہ لے کر میرے پاس آیا تو میں بھی تجھ سے زمین بر بخشش کے ساتھ ملاقات کروں گا بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا، اے آدم کے بیٹے! اگر تو اتنے گناہ کرے کہ تیرے گناہ آسمان کی بلندی کو چھونے لگیں پھر تو مجھ سے مغفرت و بخشش طلب کرے تب بھی میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کچھ پرواہ نہ ہوگی۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2822) طاعات و نیکیوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا تقرب کوئی حاصل کرے تو الله تعالیٰ بھی رحمت و محبت، بخشش و مغفرت کے ساتھ اس سے قریب ہو جاتا ہے، یہ الله تعالیٰ کا بڑا فضل و کرم ہے، اور ڈھیر سارے گناہوں کے باوجود اگر انسان سچے دل سے توبہ و استغفار کرے تو الله تعالیٰ نہ صرف اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے بلکہ اس کے لئے یہ خوشخبری ہے: «التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ» لیکن اس کا مطلب یہ نہیں انسان گناہوں کو اپنا شیوہ بنا لے، کیونکہ ایسا شخص توبہ اور انابہ الى الله کی توفیق سے محروم رہتا ہے، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ انسان سے نادانی اور غفلت میں کتنے ہی گناہ سرزد ہو جائیں حتیٰ کہ اس کے گناہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جائیں تو بھی اس کو اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا چاہیے، بلکہ خلوصِ دل سے توبہ کرنی چاہے۔ « ﴿وَيَتُوبَ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾[الأحزاب: 73] » ترجمہ: ”اور اللہ تعالیٰ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کی توبہ قبول کر لیتا ہے، اور اللہ تو بہت بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے۔ “
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2830]» اس روایت کی سند حسن ہے اور یہ حدیثِ قدسی ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 3534]، [أحمد 167/5، 172، وبعض منه فى مسلم]