(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن خالد، حدثنا محمد هو: ابن إسحاق، عن عبد الرحمن بن ابي يزيد، عن القعقاع بن حكيم، عن عبد الرحمن بن وعلة، قال: سالت ابن عباس عن جلود الميتة، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "دباغها طهورها". وسالته عن بيع الخمر من اهل الذمة، فقلت له: إن لنا اعنابا، وإنا نتخذ منها هذه الخمور فنبيعها من اهل الذمة؟. قال ابن عباس: اهدى رجل من ثقيف او دوس لرسول الله صلى الله عليه وسلم راوية من خمر في حجة الوداع، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:"اما علمت يا ابا فلان ان الله قد حرمها؟". قال: لا والله. قال: "فإن الله قد حرمها". فالتفت إلى غلامه، فقال: اخرج بها إلى الحزورة فبعها، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:"او ما علمت يا ابا فلان، ان الذي حرم شربها، حرم بيعها؟". قال: فامر بها فافرغت في البطحاء..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ: ابْنُ إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَعْلَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ جُلُودِ الْمَيْتَةِ، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "دِبَاغُهَا طَهُورُهَا". وَسَأَلْتُهُ عَنْ بَيْعِ الْخَمْرِ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ لَنَا أَعْنَابًا، وَإِنَّا نَتَّخِذُ مِنْهَا هَذِهِ الْخُمُورَ فَنَبِيعُهَا مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ؟. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَهْدَى رَجُلٌ مِنْ ثَقِيفٍ أَوْ دَوْسٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَاوِيَةً مِنْ خَمْرٍ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَمَا عَلِمْتَ يَا أَبَا فُلَانٍ أَنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَهَا؟". قَالَ: لَا وَاللَّهِ. قَالَ: "فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَهَا". فَالْتَفَتَ إِلَى غُلَامِهِ، فَقَالَ: اخْرُجْ بِهَا إِلَى الْحَزْوَرَةِ فَبِعْهَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَوَ مَا عَلِمْتَ يَا أَبَا فُلَانٍ، أَنَّ الَّذِي حَرَّمَ شُرْبَهَا، حَرَّمَ بَيْعَهَا؟". قَالَ: فَأَمَرَ بِهَا فَأُفْرِغَتْ فِي الْبَطْحَاءِ..
عبدالرحمٰن بن وعلہ نے کہا: میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مردار کے چمڑے کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو دباغت دینے سے وہ پاک ہو جاتی ہے“، اور میں نے ذمی لوگوں کے ساتھ شراب کی خرید و فروخت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما) نے کہا: بنوثقیف یا دوس قبیلے کے ایک آدمی نے حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شراب کی ایک مشک ہدیہ کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”اے ابوفلاں! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ الله تعالیٰ نے شراب کو حرام کر دیا ہے؟“ عرض کیا: نہیں، اللہ کی قسم مجھے نہیں معلوم، فرمایا: ”تو سن لو الله تعالیٰ نے اسے (شراب کو) حرام کر دیا ہے“، چنانچہ وہ شخص اپنے نوکر کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے کہا: جاؤ اسے حزوره (جگہ کا نام) لے جاؤ اور بیچ دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوفلاں! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جس ذاتِ پاک نے اس کا پینا حرام کیا اسی نے اس کو بیچنا بھی حرام کر دیا ہے۔“ راوی نے کہا: چنانچہ اس نے حکم دیا اور وہ شراب کی مشک میدان میں بہا دی گئی۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 2613]» اس حدیث کے رجال ثقات ہیں اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1579]، [مالك فى الموطأ فى الاشربه 12]، [أبويعلی 2468]، [ابن حبان 4942]۔ نیز اس کی تخریج «كتاب الأضاحي، باب الاستماع بجلود الميتة» میں گزر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2605 سے 2607) اس حدیث سے شراب کی خرید و فروخت کی حرمت ثابت ہوئی، اگر بیچنا جائز ہوتا تو زمین پر کیوں بہایا جاتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شراب کا سرکہ بنانا بھی جائز نہیں۔ نیز یہ کہ مردہ جانور کا چمڑا نکال کر اسے دباغت دینے سے وہ پاک ہو جاتا ہے۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال:"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الولاء، وعن هبته". قال عبد الله: الامر على هذا، لا يباع ولا يوهب.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْوَلَاءِ، وَعَنْ هِبَتِهِ". قَالَ عَبْد اللَّهِ: الْأَمْرُ عَلَى هَذَا، لَا يُبَاعُ وَلَا يُوهَبُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء کے بیچنے اور اس کے ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اس پر عمل ہے کہ ولاء نہ بیچا جا سکتا ہے نہ ہبہ کیا جا سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي وهو عند مالك في العتق، [مكتبه الشامله نمبر: 2614]» یہ روایت صحیح اور دوسرے طرق سے متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2535]، [مسلم 1506]، [أبوداؤد 2916]، [ترمذي 1236]، [نسائي 4673]، [ابن ماجه 2747]، [ابن حبان 4948]، [الحميدي 653، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2607) ولاء غلام یا لونڈی کے ترکہ کو کہتے ہیں، اور جب غلام یا لونڈی مر جائے تو اس کا آزاد کرنے والا اس کا وارث بنے گا۔ عرب میں غلام اور آقا کے اس تعلق کو بیع کرنے یا ہبہ کرنے کا رواج تھا جس سے اسلام میں منع کر دیا گیا، اس لئے کہ ولاء نسب کی طرح ہے جو کسی طور پر بھی زائل نہیں ہو سکتا۔ اس پر تمام فقہاء عراق و حجاز کا اتفاق ہے۔ ولاء کے بیچنے اور ہبہ کرنے سے منع کیا گیا کیونکہ یہ ایک حق ہے جو آزاد کرنے والے کو غلام پر حاصل ہوتا ہے۔ ایسے حقوق کی بیع نہیں ہو سکتی کیونکہ بیع مجہول ہے، پتہ نہیں غلام کے مرتے وقت اس کے پاس کچھ ہوتا ہے یا نہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في العتق
(حديث مرفوع) اخبرنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، عن عمرو بن دينار، قال: سمعت جابر بن عبد الله الانصاري، قال: اعتق رجل منا عبدا له عن دبر. قال: "فدعا به رسول الله صلى الله عليه وسلم فباعه". قال جابر: وإنما مات عام اول. قيل لعبد الله: تقول به؟. قال: قوم يقولون.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ، قَالَ: أَعْتَقَ رَجُلٌ مِنَّا عَبْدًا لَهُ عَنْ دُبُرٍ. قَالَ: "فَدَعَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَاعَهُ". قَالَ جَابِرٌ: وَإِنَّمَا مَاتَ عَامَ أَوَّلَ. قِيلَ لعَبْدِ اللَّهِ: تَقُولُ بِهِ؟. قَالَ: قَوْمُ يَقُولُونَ.
سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے کہا: ہم میں سے ایک شخص نے اپنے غلام کو اپنے مرنے کے بعد آزاد کرنے کے لئے کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام کو بلایا اور اسے فروخت کردیا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ پہلے سال میں مرگیا۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے کہا گیا: آپ غلام مدبر کی بیع کے قائل ہیں؟ انہوں نے کہا: علماء یہی کہتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2615]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2141]، [مسلم 997/59]، [أبوداؤد 3957]، [نسائي 2545]، [أبويعلی 1825]، [ابن حبان 3342]، [الحميدي 1256]
وضاحت: (تشریح حدیث 2608) «عَنْ دُبُرٍ» کا مطلب یہ ہے: اس غلام کی آزادی اپنی موت پر موقوف رکھی اور کہا: جس دن میں مروں تم آزاد ہو۔ لہٰذا غلام مدبر وہ ہے جس کو مالک کہہ دے کہ تو میرے مرنے کے بعد آزاد ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور اہلِ حدیث کے یہاں اس کی بیع جائز ہے جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے، وہ شخص مر گیا تھا، اس کی کچھ جائیداد نہ تھی، صرف یہی غلام مدبر تھا اور وہ شخص قرضدار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی مدبر غلام آٹھ سو درہم میں بیچ کر اس کا قرض ادا کر دیا۔ اکثر روایات میں ہے کہ اس شخص کی زندگی ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا قرض ادا کرنے کے لئے ان کے اس مدبر غلام کو نیلام فرمایا اور ان کے قرض خواہوں کو فارغ کر دیا تھا، اور یہ شخص سیدنا ابن الزبیر رضی اللہ عنہ کے دورِ امارت کے آغاز میں فوت ہوا، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرض کا معاملہ کتنا خطرناک ہے کہ اس کے لئے غلام مدبر کو بھی نیلام کیا جا سکتا ہے، حالانکہ وہ غلام اپنے مالک کے مرنے کے بعد آزاد ہو جاتا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر علماء کے نزدیک مدبر کی بیع جائز نہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کسی آدمی کی لونڈی اپنے مالک کا بچہ جنے تو وہ اس مالک کے مرنے کے بعد آزاد ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا من أجل حسين بن عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 2616]» اس روایت کی سند حسین بن عبداللہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 2515]، [ابن أبى شيبه 1630]، [عبدالرزاق 13219]، [دارقطني 130/3-131]، [الحاكم 19/2]، ا [لبيهقي 346/10]، [وانظر تلخيص الحبير 217/4، بمجموع الطرق ينهض للاستدلال]
وضاحت: (تشریح حدیث 2609) اُم ولد اس لونڈی کو کہتے ہیں جس کی مالک سے اولاد ہو، ایسی لونڈی مالک کے مرنے کے بعد آزاد ہو جائے گی۔ ایک حدیث میں ہے: اس کا بیچنا اور ہبہ کرنا جائز نہیں، اپنی زندگی میں مالک اس سے استمتاع کرے گا اور اس کے مرنے کے بعد وہ آزاد ہوگی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ لونڈی جس نے اپنے مالک کے بچے کو جنم دیا ہو اس کے مرنے کے بعد آزاد ہے، لہٰذا اس کی بیع اور ہبہ جائز نہیں جیسا کہ توضیح میں گذر چکا ہے، اور اکثر علماء کا یہی فتویٰ ہے کہ اُم ولد کی خرید و فروخت حرام ہے خواہ بچہ زندہ ہو یا نہ ہو، مگر امام داؤد ظاہری رحمہ اللہ کے نزدیک اُم ولد کی بیع جائز ہے کیونکہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں اُم ولد لونڈیوں کو بیچا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی قباحت نہیں سمجھتے تھے، لیکن اس روایت میں احتمال ہے کہ ایسا اس وقت تک کیا گیا ہو جب تک کہ بیع اُم الولد سے منع نہ کیا گیا ہو۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف جدا من أجل حسين بن عبد الله
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! ان کے پیمانوں میں برکت دے، ان کے صاع اور مد میں برکت دے“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اہلِ مدینہ تھے۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 2617]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2130]، [مسلم 1368]، [ابن حبان 3746]، [مشكل الآثار 97/2]، [التمهيد لابن عبدالبر 278/1]
وضاحت: (تشریح حدیث 2610) صاع اور مد اناج، غلے کو مانپنے کے پیمانے ہیں جو آج بھی سعودی عرب میں معروف ومشہور ہیں۔ اس دعا کا مقصد یہ تھا کہ الله تعالیٰ اہلِ مدینہ کی تجارت میں برکت دے اور خوشحالی نصیب فرما، اور بھی متعدد دعائیں مدینہ اور اہلِ مدینہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیں جو قبول ہوئیں، اور آج مدینہ منورہ مکہ مکرمہ ہی کی طرح منبع اسلام اور خیر و برکت کا نمونہ بنا ہوا ہے، اور الله تعالیٰ حرمین شریفین کو ہمیشہ قائم دائم رکھے، اور اپنی برکتوں و رحمتوں کا یہاں نزول فرماتا رہے، اور ہمیشہ یہاں امن و امان رہے، سب کو مامون و محفوظ رکھے، آمین۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن عمر، اخبرنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن مسروق، عن بلال، قال: كان عندي مد تمر للنبي صلى الله عليه وسلم فوجدت اطيب منه صاعا بصاعين، فاشتريت منه، فاتيت به النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "من اين لك هذا يا بلال؟". قلت: اشتريت صاعا بصاعين. قال:"رده ورد علينا تمرنا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ بِلَالٍ، قَالَ: كَانَ عِنْدِي مُدُّ تَمْرٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُ أَطْيَبَ مِنْهُ صَاعًا بِصَاعَيْنِ، فَاشْتَرَيْتُ مِنْهُ، فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "مِنْ أَيْنَ لَكَ هَذَا يَا بِلَالُ؟". قُلْتُ: اشْتَرَيْتُ صَاعًا بِصَاعَيْنِ. قَالَ:"رُدَّهُ وَرُدَّ عَلَيْنَا تَمْرَنَا".
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مد کھجوریں تھیں، مجھے اس سے اچھی کھجور ایک صاع دو صارع کے بدلے میں ملیں اور میں نے وہ خرید لیں اور انہیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کھجور تمہارے پاس کہاں سے آ گئیں؟“ میں نے عرض کیا کہ دو صاع دیکر ایک صاع میں نے خرید لی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کو واپس کر دو اور ہماری کھجور ہمیں لوٹا دو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إن كان مسروق سمعه من بلال، [مكتبه الشامله نمبر: 2618]» اگر مسروق نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے سنا ہے تو یہ سند صحیح ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [شرح معاني الآثار 68/4]، [طبراني 359/1، 1097]، [التمهيد لابن عبدالبر 134/5، وله شاهد فى مجمع الزوائد 6638]
وضاحت: (تشریح حدیث 2611) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنس اگر ایک ہو تو اس کی بیع و شراء میں کمی یا زیادتی جائز نہیں، کیونکہ یہ عین ربا (سود) ہے، اسی لئے جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی دو صاع کھجور دے کر ایک صاع کھجور خریدی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کرا دیا، اس کی مزید وضاحت آگے آ رہی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إن كان مسروق سمعه من بلال
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا سليمان هو: ابن بلال , عن عبد المجيد بن سهيل بن عبد الرحمن، انه سمع سعيد بن المسيب يحدث ان ابا سعيد الخدريوابا هريرة حدثاه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث اخا بني عدي الانصاري فاستعمله على خيبر، فقدم بتمر جنيب. قال ابن مسلمة: يعني: جيدا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اكل تمر خيبر هكذا؟". قال: لا والله يا رسول الله، إنا لنشتري الصاع بالصاعين من الجمع، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تفعلوا، ولكن مثلا بمثل، او بيعوا هذا، واشتروا بثمنه من هذا، وكذلك الميزان".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ هُوَ: ابْنُ بِلَالٍ , عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ يُحَدِّثُ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّوَأَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَاهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَخَا بَنِي عَدِيٍّ الْأَنْصَارِيَّ فَاسْتَعْمَلَهُ عَلَى خَيْبَرَ، فَقَدِمَ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ. قَالَ ابْنُ مَسْلَمَةَ: يَعْنِي: جَيِّدًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا؟". قَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَشْتَرِي الصَّاعَ بِالصَّاعَيْنِ مِنَ الْجَمْعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَفْعَلُوا، وَلَكِنْ مِثْلًا بِمِثْلٍ، أَوْ بِيعُوا هَذَا، وَاشْتَرُوا بِثَمَنِهِ مِنْ هَذَا، وَكَذَلِكَ الْمِيزَانُ".
سیدنا ابوسعید خدری اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوعدی کے بھائی کو خیبر کے لئے عامل (آفیسر یا تحصیل دار) بنا کر بھیجا تو وہ وہاں سے جنيب (نامی اچھی کھجور) لے کر آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”کیا خیبر کی سب کھجوریں ایسی ہی (عمده) ہوتی ہیں؟“ انہوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول! سب ایسی نہیں ہوتی تھیں، ہم جمع (نامی ردی کھجور) کے دو صاع دے کر اس (جنیب) کا ایک صاع خریدتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہ کیا کرو بلکہ اسی کے مثل برابر (تول و ناپ میں) خرید و فروخت کرو یا پھر اس کو بیچ دو اور اس کی قیمت سے جنيب (اچھی کھجور) خرید لو، اور تولنے والی اشیاء میں بھی اسی طرح سے کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2619]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2201، 7350]، [مسلم 1593]، [نسائي 4568]، [ابن حبان 5021]، [مشكل الآثار 122/2]
وضاحت: (تشریح حدیث 2612) یعنی یا تو اپنی جمع کھجور برابر بیچ دو یا اس کے مقابل دوسری جنس کی تول کر بیچی جانے والی چیز لے لو، پھر اس سے اچھی قسم کی کھجور خریدو، اس طرح سود اور بیاج کا شبہ نہ رہے گا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: خیبر پر جس کو عامل مقرر کیا تھا اس کا نام سواد بن غزیہ تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوئی جنس خواہ گھٹیا ہی کیوں نہ ہو وزن میں اسے بڑھیا کے برابر ہی وزن کرنا ہوگا، یا پھر وہ گھٹیا چیز الگ بیچ کر اس کے پیسوں سے بڑھیا جنس خرید لی جائے، اور ایک ہی جنس کو (تفاضل) کمی اور زیادتی کے ساتھ بیچنے میں سود اور بیاج کی صورت ہے جو قطعاً حرام ہے۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا محمد بن إسحاق، عن الزهري، عن مالك بن اوس بن الحدثان النصري، عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "الذهب بالذهب هاء وهاء، والفضة بالفضة هاء وهاء، والتمر بالتمر هاء وهاء، والبر بالبر هاء وهاء، والشعير بالشعير هاء وهاء، ولا فضل بينهما".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ، قالَ: سمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ هَاءَ وَهَاءَ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ هَاءَ وَهَاءَ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ هَاءَ وَهَاءَ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ هَاءَ وَهَاءَ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ هَاءَ وَهَاءَ، وَلَا فَضْلَ بَيْنَهُمَا".
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”سونے کے بدلے سونا (بیچو تو) نقداً ہو (ادھار نہ ہو، اسی طرح) چاندی کے بدلے چاندی (کی بیع) نقداً ہو، اور کھجور کے بدلے کھجور نقداً ہو، اور گندم کے بدلے گندم نقداً ہو، جو کے بدلے جو بھی نقداً ہو اور ان (تمام اجناس) کے درمیان کمی بیشی نہ ہو۔“
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات ولكن ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس. ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2620]» یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2134]، [مسلم 1586]، [أبوداؤد 3348]، [ترمذي 1243]، [نسائي 4572]، [ابن ماجه 2253]، [أبويعلی 149]، [ابن حبان 5013]، [الحميدي 12]
وضاحت: (تشریح حدیث 2613) «هَاءَ وَهَاءَ» کا مطلب ہے: بائع اور مشتری سامان اور قیمت کا تبادلہ اسی وقت کر لیں، یعنی یہ سودا دست بدستی اس ہاتھ سے لیں اس ہاتھ سے دیں، خریدار روپے دے اور تاجر مال ادا کر دے، اور کسی ایک جنس میں کمی یا بیشی نہ ہو۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک جنس کی کوئی بھی چیز خرید و فروخت میں ایک مجلس میں نقداً نقد اگر ادا کی جائے اور اس میں کمی بیشی بھی نہ ہو تو یہ بیع صرف ہے، سونے و چاندی کو سونے چاندی کے عوض خرید و فروخت کرنا جائز ہے بشرطیکہ ادھار نہ بیچی جائے اور کمی بیشی بھی نہ ہو، سونا اگر سونے کے بدلے خریدنا ہو تو ایک مجلس میں ایک ہی وزن کے ساتھ تبادلہ کر سکتے ہیں، اگر بائع سونا دے اور مشتری ادھار لے کر بعد میں قیمت ادا کرے، یا بائع دس گرام سونا دے اور مشتری 11 گرام ادا کرے تو یہ تفاضل ہے، اور یہ ہی سود ہے جو حرام ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں پانچ اجناس ذکر کی گئی ہیں، دیگر احادیث میں نمک کا بھی ذکر ہے، نیز یہ کہ دیگر روایات میں ہے کہ جس نے ان اجناس میں زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود دیا یا لیا، اور لینے و دینے والا دونوں برابر ہوں۔ یہ کل چھ اجناس ہیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ ان میں کمی و زیادتی ربا اور حرام ہے، اور تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے، سب علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ان چھ چیزوں (سونا، چاندی، کھجور، گندم، جو، اور نمک) کے علاوہ اجناس میں اگر ایک چیز کی بیع و شراء ہو تو ادھار اور تفاضل جائز ہے یا نہیں، جیسے جوار، باجرہ، چاول، چنا وغیرہ۔ جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ سود کی علت جہاں پائی جائے گی وہ بھی سود ہی ہوگا، اور اہلِ ظاہر و امام شوکانی رحمہ اللہ وغیرہ نے سود کو انہیں چھ اجناس میں محصور مانا ہے، باقی دیگر اشیاء میں نہیں۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات ولكن ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس. ولكن الحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا خالد، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن ابي الاشعث الصنعاني، قال: قام اناس في إمارة معاوية يبيعون آنية الذهب والفضة إلى العطاء. فقام عبادة بن الصامت، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم"نهى عن بيع الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، والبر بالبر، والتمر بالتمر، والشعير بالشعير، والملح بالملح إلا مثلا بمثل سواء بسواء، فمن زاد او ازداد، فقد اربى".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، قَالَ: قَامَ أنَاسٌ فِي إِمَارَةِ مُعَاوِيَةَ يَبِيعُونَ آنِيَةَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ إِلَى الْعَطَاءِ. فَقَامَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى عَنْ بَيْعِ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرِّ بِالْبُرِّ، وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ، وَالشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ، وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ، فَمَنْ زَادَ أَوْ ازْدَادَ، فَقَدْ أَرْبَى".
ابواشعث صنعانی نے کہا: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں لوگ سونے اور چاندی کے برتن تنخواہ ملنے کے وقت تک فروخت کرنے لگے (یعنی سونے یا چاندی کے برتن دراہم اور دنانیر سے ادھار کے طور پر خرید و فروخت کرنے لگے) تو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا: سونے کو سونے کے بدلے بیچنے سے، چاندی کو چاندی کے بدلے، گندم کو گندم کے عوض، کھجور کو کھجور کے بدلے، جو کو جو کے بدلے، نمک کو نمک کے بدلے بیچنے سے مگر برابر برابر اور نقداً نقداً پس جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو ربیٰ (سود) ہوگیا۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2614) «إِلَى الْعَطَاءِ» سے مقصود یہ ہے کہ جب صدقات میں سے حصہ ملے گا تو اس کی قیمت لے لیں گے، یعنی ادھار بیچنے کا حکم کیا، جیسے کہ مسلم شریف کی روایت میں بھی تصریح ہے۔ اس حدیث میں بھی وضاحت ہے کہ مذکورہ چھ اجناس میں سے کوئی بھی ایک جنس خرید و فروخت میں ادھار یا کم و بیش نہ دی جائے نہ لی جائے ورنہ یہ ربا ہو جائے گا، اسی لئے جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سونے کے برتن دینار (جو سونے کا ہوتا تھا) کے عوض اور چاندی کے برتن درہم (جو چاندی کا ہوتا تھا) کے بدلے ادھار بیچنے کا حکم دیا کہ اس کی قیمت تنخواہ ملنے پر ادا کر دی جائے تو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اس کا سخت نوٹس لیا اور بتایا کہ یہ حرام اور سود ہے، بلکہ مسلم شریف میں تفصیل ہے کہ جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے تو ایسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا نہیں تو اور سخت الفاظ میں سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! میں یہ ضرور بیان کروں گا چاہے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پسند کریں یا نہ کریں، چاہے میرے ساتھ کیسا ہی برتاؤ کریں، اور سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہی درست تھا، ان کے نہ سننے سے یہ ضروری نہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہی نہ ہو۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: مجھے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سود صرف قرض کی صورت میں ہے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یعنی (ایک) درہم کے بدلے دو درہم ادا کرے۔ (تو سود ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2622]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2178، 2179]، [مسلم 1596]، [نسائي 4594]، [ابن ماجه 2257]، [ابن حبان 5023]، [الحميدي 555]
وضاحت: (تشریح حدیث 2615) اس کی صورت یہ ہے کہ ایک درہم کسی کو ادھار دے اور کہے کہ ایک ماہ بعد دو درہم ادا کرنے ہوں گے، سو یہ عین سود ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما صرف اسی کو ربا (سود) سمجھتے تھے کہ ایک جنس ادھار فروخت کی جائے تب ہی ربا ہوگی، اگر تفاضل کے ساتھ ایک درہم دو درہم کے بدلے نقد بیچے تو جائز و درست ہے، اس پر سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ وغیرہ نے اعتراض کیا تو انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور تمام صحابہ کا اجماع اس پر ہو گیا کہ ادھار اور تفاضل ایک جنس میں سود و بیاج کا سبب ہے۔ بعض علماء نے کہا: «لا ربا إلا فى النسئية» منسوخ ہے، اور بعض نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس قول سے رجوع کر لیا تھا۔