(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا سليمان هو: ابن بلال , عن عبد المجيد بن سهيل بن عبد الرحمن، انه سمع سعيد بن المسيب يحدث ان ابا سعيد الخدريوابا هريرة حدثاه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث اخا بني عدي الانصاري فاستعمله على خيبر، فقدم بتمر جنيب. قال ابن مسلمة: يعني: جيدا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اكل تمر خيبر هكذا؟". قال: لا والله يا رسول الله، إنا لنشتري الصاع بالصاعين من الجمع، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تفعلوا، ولكن مثلا بمثل، او بيعوا هذا، واشتروا بثمنه من هذا، وكذلك الميزان".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ هُوَ: ابْنُ بِلَالٍ , عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ يُحَدِّثُ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّوَأَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَاهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَخَا بَنِي عَدِيٍّ الْأَنْصَارِيَّ فَاسْتَعْمَلَهُ عَلَى خَيْبَرَ، فَقَدِمَ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ. قَالَ ابْنُ مَسْلَمَةَ: يَعْنِي: جَيِّدًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا؟". قَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَشْتَرِي الصَّاعَ بِالصَّاعَيْنِ مِنَ الْجَمْعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَفْعَلُوا، وَلَكِنْ مِثْلًا بِمِثْلٍ، أَوْ بِيعُوا هَذَا، وَاشْتَرُوا بِثَمَنِهِ مِنْ هَذَا، وَكَذَلِكَ الْمِيزَانُ".
سیدنا ابوسعید خدری اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوعدی کے بھائی کو خیبر کے لئے عامل (آفیسر یا تحصیل دار) بنا کر بھیجا تو وہ وہاں سے جنيب (نامی اچھی کھجور) لے کر آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”کیا خیبر کی سب کھجوریں ایسی ہی (عمده) ہوتی ہیں؟“ انہوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول! سب ایسی نہیں ہوتی تھیں، ہم جمع (نامی ردی کھجور) کے دو صاع دے کر اس (جنیب) کا ایک صاع خریدتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہ کیا کرو بلکہ اسی کے مثل برابر (تول و ناپ میں) خرید و فروخت کرو یا پھر اس کو بیچ دو اور اس کی قیمت سے جنيب (اچھی کھجور) خرید لو، اور تولنے والی اشیاء میں بھی اسی طرح سے کرو۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2612) یعنی یا تو اپنی جمع کھجور برابر بیچ دو یا اس کے مقابل دوسری جنس کی تول کر بیچی جانے والی چیز لے لو، پھر اس سے اچھی قسم کی کھجور خریدو، اس طرح سود اور بیاج کا شبہ نہ رہے گا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: خیبر پر جس کو عامل مقرر کیا تھا اس کا نام سواد بن غزیہ تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوئی جنس خواہ گھٹیا ہی کیوں نہ ہو وزن میں اسے بڑھیا کے برابر ہی وزن کرنا ہوگا، یا پھر وہ گھٹیا چیز الگ بیچ کر اس کے پیسوں سے بڑھیا جنس خرید لی جائے، اور ایک ہی جنس کو (تفاضل) کمی اور زیادتی کے ساتھ بیچنے میں سود اور بیاج کی صورت ہے جو قطعاً حرام ہے۔ واللہ اعلم۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2619]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2201، 7350]، [مسلم 1593]، [نسائي 4568]، [ابن حبان 5021]، [مشكل الآثار 122/2]