(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، عن همام، عن قتادة، عن الحسن، عن عقبة بن العامر، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "عهدة الرقيق ثلاثة ايام". ففسره قتادة: إن وجد في الثلاث عيبا رده بغير بينة، وإن وجده بعد ثلاثة، لم يرده إلا ببينة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْعَامِرِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عُهْدَةُ الرَّقِيقِ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ". فَفَسَّرَهُ قَتَادَةُ: إِنْ وَجَدَ فِي الثَّلَاثِ عَيْبًا رَدَّهُ بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ، وَإِنْ وَجَدَهُ بَعْدَ ثَلاثَةٍ، لَمْ يَرُدَّهُ إِلَّا بِبَيِّنَةٍ.
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غلام کی ضمانت تین دن تک ہے۔“ قتادة رحمہ اللہ نے اس کی تفسیر یوں بیان کی کہ تیسرے دن غلام میں کوئی عیب پائے تو مشتری کو اختیار ہے کہ بلا دلیل اس کو واپس کر دے اور اگر چار دن کے بعد کوئی عیب اس میں دیکھے تو بغیر دلیل کے واپس نہیں کر سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2594]» اس حدیث کی سند بھی مثلِ سابق ضعیف ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وهو مكرر سابقه
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص دودھ جمع کی ہوئی بکری یا اونٹنی خریدے اس کو تین دن کا اختیار ہے (چاہے تو اس بکری یا اونٹنی، گائے وغیرہ کو واپس کر دے)، اگر اس کو واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع کھانے کی چیز گیہوں کے علاوہ واپس کرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2595]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2150]، [مسلم 1524]، [ترمذي 1252]، [أبويعلی 6049]، [ابن حبان 4970]، [الحميدي 1058]
وضاحت: (تشریح احادیث 2586 سے 2589) «لِقْحَة و مُصَرَّاة» وہ بکری، بھیٹر، اونٹنی، گائے یا بھینس ہے جس کا دودھ نہ نکالا جائے، تاکہ وہ تھنوں میں جمع ہوتا رہے اور کثیر مقدار میں معلوم ہو، خریدار کو دھوکہ ہو جائے اور وہ سمجھے کہ یہ تو بڑا دودھیل جانور ہے، اور خریدار جھانسے میں آ کر زیادہ قیمت دینے پر آمادہ ہو جائے۔ ایسی صورت میں خریدار کو اختیار ہے تین دن تک چاہے تو اس جانور کو اپنے پاس رکھے اور چاہے تو بیچنے والے کو واپس کر دے، لیکن ساتھ میں ایک صاع کھجور وغیرہ بھی دے گا جو اس ملک کی عام خوراک ہو گیہوں کے علاوہ، تاکہ جانور سے حاصل شدہ دودھ کا معاوضہ ہو جائے اور فریقین میں جھگڑا نہ رہے۔ جمہور علماء کے نزدیک یہ مسئلہ ایسے ہی ہے جس طرح حدیث میں بیان کیا گیا ہے، لیکن احناف نے اس میں اختلاف کیا۔ اور قیاس سے حدیث کو نا قابلِ عمل ٹھہرایا ہے کہ خریدار کو دھوکہ دیا گیا وہ مزید جرمانہ ایک صاع کیوں ادا کرے، اور انہوں نے اس بارے میں اتنی شدت اختیار کی کہ راویٔ حدیث صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر بھپتی کسا اور طعن و تشنيع کر ڈالا کہ وہ فقیہ تو تھے نہیں اس لئے ایسی حدیث روایت کر ڈالی۔ «نعوذ باللّٰه من ذلك» . امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے [فتاوى: 538/3، 539] میں اس سے متعلق ایک عبرت آمیز واقعہ نقل کیا ہے کہ کچھ طالبِ علم اس حدیث کامذاکره و مراجعہ کر رہے تھے، کسی نے کہا: مشتری ایک صاع تمر وغیرہ کیوں واپس کرے؟ یہ تو اس پر ظلم ہے، ایک طالبِ علم نے کہا: ارے یہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو فقیہ تو تھے نہیں بس حدیث روایت کر دی، گویا اس نے صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی، اسی وقت چھت سے ایک زہریلا سانپ گرا اور اس طالب علم کو ڈسا جس نے حقارت آمیز طریقے سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام لیا تھا، اور وہ طالبِ علم اسی وقت فوت ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں صحابہ کرام کی محبت جاگزیں فرمائے اور گستاخی سے بچائے (آمین)۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ حضرات سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو سب سے بڑا فقیہ مانتے ہیں جبکہ ان سے بھی اسی طرح مروی ہے کہ ایک صاع غلہ دینا ہوگا، لیکن احناف ان کی اس بات کو نہیں مانتے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا بیع غرر (دھوکے کی بیع) سے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2596]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1513]، [أبوداؤد 3376]، [ترمذي 1230]، [نسائي 4530]، [ابن ماجه 2194]، [ابن حبان 4951]، [معرفة السنن و الآثار للبيهقي 10952]
وضاحت: (تشریح حدیث 2589) دھوکے کی بیع یہ ہے کہ اس کے ملنے یا نہ ملنے میں تردد ہو، جیسے مچھلی پانی میں، پرندہ ہوا میں ہو، اور اس کی خرید و فروخت کی جائے۔ اسی طرح بھاگا ہوا غلام، بیع الحمل، بیع المصراۃ جس کا ذکر ابھی گذرا، اور دیگر اسی طرح کی بیوع جن میں دھوکہ ہو۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس سودے اور بیع میں دھوکہ ہو وہ جائز نہیں ہے، اس کی مختلف صورتیں ہیں جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ عہدِ جاہلیت میں بیوع مثلاً محاقلہ، مزابنہ، اور پھل پکنے سے پہلے پھل بیچنا، یہ جملہ مذموم طریقے جاری تھے اور اس میں نفع و نقصان ہر دو کا قوی احتمال ہوتا تھا۔ بعض دفعہ لینے والے کے وارے نیارے ہو جاتے اور بعض دفعہ وہ اصل پونجی بھی گنوا بیٹھتا۔ اسلام نے ان بیوع سے روک دیا۔ آج کل ایسے دھوکے کے طریقوں کی جگہ لاٹری، سٹہ، ریس وغیرہ نے لے لی ہے جو اسلامی احکام کی روشنی میں نہ صرف ناجائز بلکہ سود و بیاج کے دائرے میں داخل ہیں۔ خرید و فروخت میں دھوکہ کرنے والے کے حق میں شدید وعید آئی ہے، فرمایا: «مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا.» اس کا ذکر حدیث رقم (2577) پرگذر چکا ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، قال:"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمار حتى يبدو صلاحها، نهى البائع والمشتري".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا، نَهَى الْبَائِعَ وَالْمُشْتَرِيَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکنے سے پہلے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا۔ بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو اس بیع سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 2597]» اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2194]، [مسلم 1534]، [أبويعلی 5415]، [ابن حبان 4981، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2590) پھلوں کے پکنے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سرخی یا زردی پیدا ہو جائے اور پکنے کی صلاحیت نمایاں ہونے لگے، اس وقت ان کی خرید و فروخت جائز ہے اس سے پہلے نہیں۔ قسطلانی رحمہ اللہ نے کہا: ہر چیز میں اس کے پکنے کی صلاحیت کے ظہور «حَتَّي يَبْدُوَ صَلَاحُهَا» سے مراد اس میں وہ صفت پیدا ہو جائے جو غالب طور پر مطلوب ہوتی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کچے پھل اور میوے بیچنا منع ہے، جب پکنے کے آثار پیدا ہو جائیں تب ہی پھلوں کا بیچنا درست ہے کیوں کہ ہو سکتا ہے کچے میوے میں یا پھل میں کوئی بیماری پیدا ہو جائے اور مشتری کو نقصان اٹھانا پڑے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن عمر، حدثنا ابن جريج، عن ابي الزبير، عن جابر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "من ابتاع ثمرة فاصابته جائحة، فلا ياخذن منه شيئا. بم تاخذ مال اخيك بغير حق؟".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنِ ابْتَاعَ ثَمَرَةً فَأَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ، فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْهُ شَيْئًا. بِمَ تَأْخُذُ مَالَ أَخِيكَ بِغَيْرِ حَقٍّ؟".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص پھل بیچے (خریدے) پھر اس (پھل) پر آفت آجائے تو وہ ہرگز (مشتری) کا مال نہ لے، آخر کس بات پر تم اپنے مسلمان بھائی کا مال لے رہے ہو؟“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح فقد صرح ابن جريج بالتحديث عند مسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 2598]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1554]، [أبوداؤد 3470]، [نسائي 4541]، [ابن ماجه 2219]، [ابن حبان 5034]
وضاحت: (تشریح حدیث 2591) واضح رہے کہ «جَائِحَةٌ» سے مراد حدیث میں وہ آفت ہے جو پھلوں کو برباد کر کے رکھ دے، جیسے شدید بارش، زالہ باری، ٹڈی دل، آندھی، طوفان، آگ وغیرہ۔ امام احمد رحمہ اللہ اور اہلِ حدیث نے اسی حدیث پر عمل کیا ہے اور کہا ہے کہ میوے پر اگر آفت آجائے ایسی کہ کل میوہ تلف ہو جائے تو ساری قیمت بائع سے مشتری کو واپس دلائی جائے گی، اگرچہ یہ آفت مشتری کا قبضہ ہو جانے کے بعد آئے۔ حنفیہ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ مشتری نے قبضہ کر لیا پھلوں پر، اب کوئی آفت آئی تو مشتری کا نقصان ہوگا، وہ اس صورت میں بائع کو قیمت واپس کرنی ہوگی کیوں کہ یہ بیع جائز نہیں تھی۔ (وحیدی)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح فقد صرح ابن جريج بالتحديث عند مسلم
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: محاقلہ بالیوں میں کھڑی کھیتی کو گندم کے عوض فروخت کرنے کو کہتے ہیں۔ ابن المسیب نے بھی ایسے ہی کہا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2599]» اس روایت کی سند حسن ہے لیکن حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2186]، [مسلم 1546]، [ترمذي 1300]، [نسائي 4546]، [ابن ماجه 226]، [أبويعلی 1191]
وضاحت: (تشریح حدیث 2592) محاقلہ کی تعریف امام دارمی رحمہ اللہ نے یہ کی ہے کہ بالی میں لگے دانوں کو پرانے اناج کے عوض بیچا جائے، اور مزابنہ اس بیع کو کہتے ہیں کہ پیڑ پر لگے ہوئے پھل کی اسی جیسے پھل یعنی خشک میوے (جیسے انگور، کھجور وغیرہ) کے بدلے بیع کی جائے، یعنی محاقلہ اناج وغیرہ کی بیع اور مزابنہ پھلوں کی بیع سے تعلق رکھتی ہے، اور یہ دونوں بیع حرام ہیں، اور تحریم کی وجہ یہ ہے کہ بالیوں میں کھڑی کھیتی اور درخت پر لگے پھلوں کی صحیح مقدار کا علم نہیں ہو سکتا کہ تر میوه خشک ہو کر کتنا رہ جائے گا، زیادہ کا بھی امکان ہے اور کمی کا بھی، اور دونوں صورتوں میں بائع یا مشتری میں سے کسی کو بھی نقصان ہو سکتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن ولكن الحديث متفق عليه
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عرایا کی تر یا خشک کھجور کے بدلے اجازت دی تھی اور اس کے سوا کسی (صورت) کی اجازت نہیں دی تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2600]» اس روایت کی سند قوی ہے اور حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2184]، [مسلم 1539]، [ترمذي 1300]، [نسائي 4546]، [ابن ماجه 2268]، [أبويعلی 5798]، [ابن حبان 4981]
وضاحت: (تشریح حدیث 2593) عرايا عریہ کی جمع ہے، اور یہ ایسی بیع ہے کہ کوئی آدمی اپنے باغ میں سے دو تین درخت کسی مسکین کو دیوے، پھر اس کا باغ میں بار بار آنا مناسب خیال نہ کرے، ان درختوں کا میوه خشک میوے کے بدلے اس سے خرید لے، اور ضروری ہے کہ یہ میوه پانچ وسق سے کم ہو۔ (وحیدی)۔ مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یاد رہے کہ اہلِ عرب قحط کے دنوں میں اور خشک سالی کے ایام میں اپنے باغات میں سے فقیروں اور مسکینوں کے درختوں کو چھوڑ کر ان کے پھل صدقات کی صورت میں دیا کرتے تھے کہ فلاں درخت کی کھجوریں تمہاری ہیں، اس طرح عطیہ میں دی گئی کھجور کو عریہ کہتے ہیں، اور ان کھجور کے درختوں کا پھل کھانے کے لئے مساکین ان باغات میں جایا کرتے تھے جس سے مالکِ باغ کو تکلیف ہوئی تھی، اور یہ بھی ہوتا کہ اپنی محتاجی و غریبی کی وجہ سے مساکین ان کے پکنے کا انتظار نہ کر سکتے تھے تو اپنے حصے کے پھل وہ فروخت کر دیتے تھے، اور پھل ابھی درخت ہی پر ہوتے اور اس کے بدلے خشک کھجور (یعنی تر کے بدلے خشک) لے لیتے اور مالکِ باغات کو روز مرہ کی آمد و رفت کی تکلیف سے نجات مل جاتی۔ یہ بعینہ بیع مزابنہ ہی کی صورت ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ کو حرام قرار دیا تو ضرورت اور حاجت رفع کرنے کی غرض سے بیع عرایا کی اجازت مرحمت فرما دی اس شرط پر کہ کھجور کے اندر درختوں پر پھل کا تخمینہ لگا کر ان کے بدلے ناپ کر اتنی کھجور دے دیں جو پانچ وسق سے کم ہو۔ اس کی اور بھی صورتیں ہیں جو شروح کی کتابوں میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ بہرحال اس حدیث سے اسلام کی غربا پروری، مساکین کی دل بستگی اور سب کے ساتھ ہمدردی کی بہترین مثال سامنے آئی، احناف نے بیع عریہ کو مزابنہ پر قیاس کر کے اس کی حلت و جواز سے انکار کیا ہے جو صحیح احادیث کا انکار ہے۔ کتبِ احادیث میں اکثر جگہ جہاں مزابنہ کی حرمت کا ذکر ہے اس سے ملے ہوئے ابواب میں عرایا کی حلت کا بھی ذکر موجود ہے، اس لئے عریہ ایک خاص مقدار میں غریبوں، مسکینوں کے لئے جائز ہے۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "من ابتاع طعاما، فلا يبعه حتى يقبضه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا، فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی قسم کا اناج (غلہ) خریدے تو اس کو اپنے قبضہ میں لینے سے پہلے فروخت نہ کرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده قوي وهو عند مالك في البيوع، [مكتبه الشامله نمبر: 2601]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2126]، [مسلم 1525]، [أبوداؤد 3492]، [نسائي 4609]، [ابن ماجه 2226]، [أبويعلی 5798]، [ابن حبان 4981]
وضاحت: (تشریح حدیث 2594) اس حدیث میں کھانے پینے کی چیزیں گندم، جو، جوار، باجرہ، چاول وغیرہ اپنے قبضے میں لینے سے پہلے بیچنے کی ممانعت ہے۔ ایک روایت میں «حَتَّىٰ يَقْبِضَهُ» کی جگہ «حَتَّيٰ يَكْتَالَهُ» اور ایک روایت میں «حَتَّىٰ يَسْتَوْفِيْه» ہے، اس سے مراد ناپ تول کر اپنے قبضہ میں لینا ہے۔ بعض علماء و فقہا نے اس قبضہ کو صرف اناج غلے وغیرہ تک محدود رکھا ہے، اور بعض نے ہر منقول چیز تک، اور بعض علماء نے کہا کہ کوئی بھی چیز منقول ہو یا غیرمنقول، زمین جائیداد وغیرہ کچھ بھی، اس پر قبضہ کئے بغیر مشتری کو بیچنے کی اجازت نہیں۔ آج کل رجسٹری اور سرکاری کاغذات میں اندراج یا کاغذات کے استلام سے یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في البيوع
عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے، انہوں نے اپنے دادا سے روایت کرتے ہوئے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض اور بیع اور ایک بیع میں دو شرطوں سے اور کسی چیز کو اپنے قبضہ میں لینے سے پہلے اس کا فائدہ حاصل کرنے سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2602]» اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3504]، [ترمذي 1234]، [نسائي 4645]، [ابن ماجه 2188]۔ نیز دیکھئے: [ابن حبان 4321]، [موارد الظمآن 1108]، [شرح معاني الآثار 46/4]، [دارقطني 75/3]
وضاحت: (تشریح حدیث 2595) اس حدیث میں تین قسم کی بیع سے منع کیا گیا ہے: (1) سلف اور بیع، یعنی قرض کے ساتھ سودا کرنا، اس کی مثال اس طرح ہے کہ بائع مشتری سے کہے: میں یہ کپڑا تیرے ہاتھ دس روپے میں فروخت کرتا ہوں بشرطیکہ تو مجھے دس روپے قرض دے، یا یوں کہے کہ میں تجھے دس روپے قرض دیتا ہوں بشرطیک تم اپنا سامان مجھے فروخت کرو اور میرے سوا کسی اور کو نہ بیچو۔ (2) «شرطين فى بيع» ایک بیع میں دو شرطیں لگانا، اس سے متعلق ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ایک بیع میں دو بیع ہیں، اور امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: اس کی شکل یہ ہے کہ میں یہ کپڑا تیرے ہاتھ فروخت کرتا ہوں اس شرط پر کہ میں ہی اسے درزی سے سلوا دوں گا اور میں ہی اس کی کٹائی کروں گا۔ «كما رواه الترمذي»(3) «ربح ما لم يضمن» یعنی قبضہ میں لینے سے پہلے منافع حاصل کرنا، اس کی صورت یہ ہے کہ مشتری نے کوئی سامان خریدا، اس کو اپنے قبضہ میں لینے سے پہلے ہی بیچ دیا اور اس کو فائدہ مل گیا، نہ پیسے لگانے پڑے نہ اپنے قبضہ میں لینا پڑا۔ ان تینوں قسم کے لین دین سے حدیثِ مذکور میں منع کیا گیا ہے، لہٰذا یہ ممنوعہ بیوع میں داخل ہیں۔