سنن دارمي
من كتاب البيوع
خرید و فروخت کے ابواب
20. باب في النَّهْيِ عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ:
دھوکے کی بیع کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2590
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى الْقَطَّانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا بیع غرر (دھوکے کی بیع) سے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2596]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1513]، [أبوداؤد 3376]، [ترمذي 1230]، [نسائي 4530]، [ابن ماجه 2194]، [ابن حبان 4951]، [معرفة السنن و الآثار للبيهقي 10952]
وضاحت: (تشریح حدیث 2589)
دھوکے کی بیع یہ ہے کہ اس کے ملنے یا نہ ملنے میں تردد ہو، جیسے مچھلی پانی میں، پرندہ ہوا میں ہو، اور اس کی خرید و فروخت کی جائے۔
اسی طرح بھاگا ہوا غلام، بیع الحمل، بیع المصراۃ جس کا ذکر ابھی گذرا، اور دیگر اسی طرح کی بیوع جن میں دھوکہ ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس سودے اور بیع میں دھوکہ ہو وہ جائز نہیں ہے، اس کی مختلف صورتیں ہیں جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔
عہدِ جاہلیت میں بیوع مثلاً محاقلہ، مزابنہ، اور پھل پکنے سے پہلے پھل بیچنا، یہ جملہ مذموم طریقے جاری تھے اور اس میں نفع و نقصان ہر دو کا قوی احتمال ہوتا تھا۔
بعض دفعہ لینے والے کے وارے نیارے ہو جاتے اور بعض دفعہ وہ اصل پونجی بھی گنوا بیٹھتا۔
اسلام نے ان بیوع سے روک دیا۔
آج کل ایسے دھوکے کے طریقوں کی جگہ لاٹری، سٹہ، ریس وغیرہ نے لے لی ہے جو اسلامی احکام کی روشنی میں نہ صرف ناجائز بلکہ سود و بیاج کے دائرے میں داخل ہیں۔
خرید و فروخت میں دھوکہ کرنے والے کے حق میں شدید وعید آئی ہے، فرمایا: «مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا.» اس کا ذکر حدیث رقم (2577) پرگذر چکا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح