(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن عمر، حدثنا ابن جريج، عن ابي الزبير، عن جابر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "من ابتاع ثمرة فاصابته جائحة، فلا ياخذن منه شيئا. بم تاخذ مال اخيك بغير حق؟".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنِ ابْتَاعَ ثَمَرَةً فَأَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ، فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْهُ شَيْئًا. بِمَ تَأْخُذُ مَالَ أَخِيكَ بِغَيْرِ حَقٍّ؟".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص پھل بیچے (خریدے) پھر اس (پھل) پر آفت آجائے تو وہ ہرگز (مشتری) کا مال نہ لے، آخر کس بات پر تم اپنے مسلمان بھائی کا مال لے رہے ہو؟“
وضاحت: (تشریح حدیث 2591) واضح رہے کہ «جَائِحَةٌ» سے مراد حدیث میں وہ آفت ہے جو پھلوں کو برباد کر کے رکھ دے، جیسے شدید بارش، زالہ باری، ٹڈی دل، آندھی، طوفان، آگ وغیرہ۔ امام احمد رحمہ اللہ اور اہلِ حدیث نے اسی حدیث پر عمل کیا ہے اور کہا ہے کہ میوے پر اگر آفت آجائے ایسی کہ کل میوہ تلف ہو جائے تو ساری قیمت بائع سے مشتری کو واپس دلائی جائے گی، اگرچہ یہ آفت مشتری کا قبضہ ہو جانے کے بعد آئے۔ حنفیہ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ مشتری نے قبضہ کر لیا پھلوں پر، اب کوئی آفت آئی تو مشتری کا نقصان ہوگا، وہ اس صورت میں بائع کو قیمت واپس کرنی ہوگی کیوں کہ یہ بیع جائز نہیں تھی۔ (وحیدی)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح فقد صرح ابن جريج بالتحديث عند مسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 2598]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1554]، [أبوداؤد 3470]، [نسائي 4541]، [ابن ماجه 2219]، [ابن حبان 5034]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح فقد صرح ابن جريج بالتحديث عند مسلم