سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نکاح کے مسائل
حدیث نمبر: 2211
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا نعيم بن حماد، حدثنا عبد العزيز، عن سهيل، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه كان إذا رفا لإنسان، قال: "بارك الله لك، وبارك عليك، وجمع بينكما في خير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا رَفَّأَ لِإِنْسَانٍ، قَالَ: "بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، وَبَارَكَ عَلَيْكَ، وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی دولہا کو شادی کی مبارکباد دیتے تو یوں فرماتے: «بَارَكَ اللّٰهُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكَ وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِيْ خَيْرٍ» الله تعالیٰ تمہیں برکت دے اور تمہارے اوپر برکت نچھاور کرے اور خیر کے ساتھ تم دونوں میں اتفاق رکھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل نعيم بن حماد ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه أكثر من ثقة فيصح الإسناد والله أعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 2220]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2130]، [ترمذي 1091]، [ابن ماجه 1905]، [ابن حبان 4052]، [موارد الظمآن 1284]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل نعيم بن حماد ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه أكثر من ثقة فيصح الإسناد والله أعلم
7. باب النَّهْيِ عَنْ خِطْبَةِ الرَّجُلِ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ:
7. اپنے بھائی کے پیغام پر شادی کا پیغام دینے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2212
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم:"انه نهى عن ان يخطب الرجل على خطبة اخيه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَنَّهُ نَهَى عَنْ أَنْ يَخْطُبَ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ آدمی اپنے بھائی کے پیغام پر شادی کا پیام دے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2221]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2140]، [مسلم 1413]، [أبوداؤد 2080]، [ترمذي 1134]، [ابن ماجه 1867]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2213
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن سعيد، حدثنا عقبة بن خالد، عن عبيد الله، قال: حدثني نافع، عن ابن عمر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: "لا يخطب احدكم على خطبة اخيه ولا يبيع على بيع اخيه حتى ياذن له".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "لَا يَخْطُبْ أَحَدُكُمْ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ وَلَا يَبِيعُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ حَتَّى يَأْذَنَ لَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے پیغام پر پیغام نہ دے، اور نہ کوئی آدمی اپنے بھائی کے مول (بیع) پر مول کرے یہاں تک کہ وہ اسے اجازت دے دے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2222]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2139]، [مسلم 1412]، [أبوداؤد 2081]، [نسائي 3243]، [ابن ماجه 1868]، [أبويعلی 5801]، [ابن حبان 4048]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2210 سے 2213)
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: یہاں تک کہ پیغام دینے والا اس کو چھوڑ دے، یعنی اگر پہلا پیام ٹوٹ جائے تو دوسرے کو پیام دینا درست ہے۔
پیغام پر پیغام دینے کی ممانعت، یا کسی مسلمان بھائی کی خریدی چیز کو خریدنا، یا اس پر دام لگانے کی ممانعت اسلام کے سنہری اصولوں میں سے بہترین اصول ہیں تاکہ ایک دوسرے میں کھینچا تانی، رنجش و رقابت، عداوت و دشمنی پیدا نہ ہو۔
جمہور علماء نے پیام پر پیام دینے کو حرام قرار دیا ہے اس لئے اس سے بچنا چاہیے، ہاں جب یہ معلوم ہو جائے کہ پہلا رشتہ ختم کر دیا گیا ہے تو پھر رشتہ مانگنا اور پیام د ینا صحیح و درست ہوگا۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2214
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، انبانا محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن فاطمة بنت قيس: انها حدثته وكتبه منها كتابا انها كانت تحت رجل من قريش، من بني مخزوم، فطلقها البتة، فارسلت إلى اهله تبتغي منهم النفقة، فقالوا: ليس لك نفقة، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: "ليس لك نفقة، وعليك العدة، وانتقلي إلى بيت ام شريك، ولا تفوتينا بنفسك"، ثم قال:"إن ام شريك امراة يدخل إليها إخوانها من المهاجرين، ولكن انتقلي إلى بيت ابن ام مكتوم فإنه رجل اعمى، إن وضعت ثيابك لم ير شيئا ولا تفوتينا بنفسك"، فانطلقت إلى بيت ابن ام مكتوم فلما حلت، ذكرت ان معاوية، وابا جهم خطباها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اما معاوية، فرجل لا مال له، واما ابو جهم، فلا يضع عصاه عن عاتقه، فاين انت من اسامة؟"فكان اهلها كرهوا ذلك، فقالت: والله لا انكح إلا الذي قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنكحت اسامة. قال محمد بن عمرو: قال محمد بن إبراهيم: يا فاطمة، اتقي الله، فقد علمت في اي شيء كان هذا، قال: وقال ابن عباس: قال الله تعالى: يايها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن واحصوا العدة واتقوا الله ربكم لا تخرجوهن من بيوتهن ولا يخرجن إلا ان ياتين بفاحشة مبينة سورة الطلاق آية 1 والفاحشة ان تبذو على اهلها، فإذا فعلت ذلك، فقد حل لهم ان يخرجوها.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ: أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ وَكَتَبَهُ مِنْهَا كِتَابًا أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ، مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ، فَطَلَّقَهَا الْبَتَّةَ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى أَهْلِهِ تَبْتَغِي مِنْهُمُ النَّفَقَةَ، فَقَالُوا: لَيْسَ لَكِ نَفَقَةٌ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "لَيْسَ لَكِ نَفَقَةٌ، وَعَلَيْكِ الْعِدَّةُ، وَانْتَقِلِي إِلَى بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ، وَلَا تُفَوِّتِينَا بِنَفْسِكِ"، ثُمَّ قَالَ:"إِنَّ أُمَّ شَرِيكٍ امْرَأَةٌ يَدْخُلُ إِلَيْهَا إِخْوَانُهَا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، وَلَكِنِ انْتَقِلِي إِلَى بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَى، إِنْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ لَمْ يَرَ شَيْئًا وَلَا تُفَوِّتِينَا بِنَفْسِكِ"، فَانْطَلَقَتْ إِلَى بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَلَمَّا حَلَّتْ، ذَكَرَتْ أَنَّ مُعَاوِيَةَ، وَأَبَا جَهْمٍ خَطَبَاهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَمَّا مُعَاوِيَةُ، فَرَجُلٌ لَا مَالَ لَهُ، وَأَمَّا أَبُو جَهْمٍ، فَلَا يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتِقِهِ، فَأَيْنَ أَنْتِ مِنْ أُسَامَةَ؟"فَكَأَنَّ أَهْلَهَا كَرِهُوا ذَلِكَ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَا أَنْكِحُ إِلَّا الَّذِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَكَحَتْ أُسَامَةَ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: يَا فَاطِمَةُ، اتَّقِي اللَّهَ، فَقَدْ عَلِمْتِ فِي أَيِّ شَيْءٍ كَانَ هَذَا، قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلا يَخْرُجْنَ إِلا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ سورة الطلاق آية 1 وَالْفَاحِشَةُ أَنْ تَبْذُوَ عَلَى أَهْلِهَا، فَإِذَا فَعَلَتْ ذَلِكَ، فَقَدْ حَلَّ لَهُمْ أَنْ يُخْرِجُوهَا.
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوسلمہ رحمہ اللہ کو حدیث بیان کی اور انہوں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے لکھ لیا، وہ قریش کے قبیلہ بنو مخزوم کے ایک شخص کے نکاح میں تھیں کہ انہوں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو آخری قطعی طلاق (تیسری طلاق) دے دی، انہوں نے اپنے سسرال والوں سے نان و نفقہ طلب کیا تو انہوں نے جواب دیا: تمہارے لئے ہمارے پاس کوئی نان و نفقہ نہیں (کیونکہ طلاق بائنہ ہو چکی ہے جس کے بعد رجوع نہیں)، جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ تمہارے لئے کچھ نفقہ نہیں اور عدت گزارنا لازم ہے، اس لئے سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا کے گھر منتقل ہو جاؤ اور ہم سے دور نہ رہنا۔ (یعنی جب عدت پوری ہو جائے تو ہمارے پاس آنا)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام شریک تو ایسی خاتون ہیں جن کے پاس ان کے مہاجرین بھائی آتے جاتے رہتے ہیں (کیونکہ وہ بڑی مالدار اور مہمان نواز تھیں اور مہمان آتے رہتے تھے) ایسا کرو (اپنے چچا زاد بھائی) ابن ام مکتوم کے گھر منتقل ہو جاؤ جو نابینا ہیں، اگر تم ان کے پاس کپڑے بھی اتار دوگی تو وہ کچھ نہیں دیکھ پائیں گے، اور ہم سے دور نہ رہنا، چنانچہ وہ عمرو بن ام مکتوم کے پاس چلی گئیں، جب عدت پوری ہو گئی تو آ کر بتایا کہ معاویہ اور ابوجہم نے ان کو پیغام (شادی) بھیجا ہے جس پر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاویہ تو غریب ہیں ان کے پاس مال و دولت ہی نہیں اور ابوجہم (بڑے سخت گیر ہیں) ان کے کندھے سے لاٹھی اترتی ہی نہیں۔ اسامہ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ لیکن ان کے اہل خانہ کو یہ پسند نہ تھا (کہ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے شادی کر لیں)، انہوں نے کہا: قسم اللہ کی میں اس کے سوا کسی سے شادی نہ کروں گی جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے، چنانچہ انہوں نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے شادی کر لی (نسائی میں ہے کہ ان سے شادی کر کے میں بہت سکھی رہی، دیگر عورتیں میرے اوپر رشک کرتی تھیں)۔ محمد بن عمرو نے کہا: محمد بن ابراہیم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اے فاطمہ! اللہ سے ڈرو کہ تم کس چیز کے بارے میں ایسا کہہ رہی ہو (یعنی مطلقہ بائنہ ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ تمہارے لئے نان و نفقہ اور سکن نہیں ہے)، نیز انہوں نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت: «﴿لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ ......﴾» [الطلاق: 1/65] یعنی مطلقہ عورتوں کو نہ ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود گھر سے نکلیں یہاں تک کہ وہ کھلی ہوئی فحش کاری میں مبتلا ہو جائیں۔ (یعنی) فاحشہ بدکاری اہل خانہ پر واضح ہو جائے، ایسی صورت میں جائز ہے کہ اس مطلقہ عورت کے سسرال والے عدت پوری ہونے سے پہلے اسے اپنے گھر سے نکال دیں۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2223]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1480]، [أبوداؤد 2284، 2285]، [نسائي 3244، 3405]، [ابن حبان 4049]، [الحميدي 367]، [وله شاهد من حديث أبى هريرة فى مسند أبى يعلی 5928]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2213)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کی تین طلاقیں پڑ چکی ہوں اس کے لئے نہ نفقہ ہے نہ سکنی۔
سیدنا عمر، سیدنا ابن عباس، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم کو اس امر میں تردد تھا کیونکہ مذکورہ بالا آیتِ شریفہ میں وضاحت ہے کہ نہ شوہر عورت کو زبردستی کر کے گھر سے نکالے اور نہ وہ مطلقہ عورت خود (عدت کے دوران) گھر سے باہر نکلے، ہاں اگر کوئی بے حیائی کا کام کرے اس وقت اس عورت کو عدت کے دوران گھر سے نکال دینا درست ہے، اسی لئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اگر تم اپنے دعوے پر دو گواہ لاؤگی تو ہم مانیں گے، ورنہ آیت کے مطابق عمل کریں گے۔
مذکورہ بالا روایت میں محمد بن ابراہیم کا سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے یہ کہنا کہ تم اللہ سے ڈرو آیت کے خلاف بات بتا رہی ہو، اسی قبیل سے ہے۔
اور آیتِ شریفہ مطلقہ رجعیہ کے بارے میں ہے کہ جب تک طلاق رجعی کی عدت ہے عورت اپنے شوہر کے گھر ہی میں رہے گی، ہو سکتا ہے کہ رجوع کی صورت نکل آئے اور گھر بگڑنے سے بچ جائے، تین طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں اس لئے عورت کا شوہر کے گھر میں رہنا بے مقصد و بے فائدہ ہے اس لئے وہ یہ مدت اپنے میکے والوں میں گذارے گی کیونکہ رشتۂ زوجیت ختم ہو چکا ہے، تو اس کے خرچ و اخراجات، رہنے سہنے کا بوجھ شوہر پر نہ ہوگا۔
محدثین نے مذکورہ بالا حدیث کو صحیح کہا ہے اور اسی کے عامل ہیں۔
مزید تفصیل حدیث رقم (2311) کے ضمن میں آ رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
8. باب الْحَالِ التي تَجُوزُ لِلرَّجُلِ أَنْ يَخْطُبَ فِيهَا:
8. آدمی کے لئے کس کو پیغام دینا جائز ہے؟
حدیث نمبر: 2215
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا داود يعني ابن ابي هند، حدثنا عامر، حدثنا ابو هريرة:"ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى ان تنكح المراة على عمتها، والعمة على ابنة اخيها، او المراة على خالتها، او الخالة على بنت اختها، ولا تنكح الصغرى على الكبرى، ولا الكبرى على الصغرى".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي هِنْدٍ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ:"أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، وَالْعَمَّةُ عَلَى ابْنَةِ أَخِيهَا، أَوْ الْمَرْأَةُ عَلَى خَالَتِهَا، أَوْ الْخَالَةُ عَلَى بِنْتِ أُخْتِهَا، وَلَا تُنْكَحُ الصُّغْرَى عَلَى الْكُبْرَى، وَلَا الْكُبْرَى عَلَى الصُّغْرَى".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا پھوپھی پر بھتیجی سے یا بھتیجی پر پھوپھی سے نکاح کرنے کو، اسی طرح خالہ پر اس کی بھانجی سے اور بھانجی پر اس کی خالہ سے نکاح کرنے کو، نہ بڑی پر چھوٹی سے نکاح کیا جائے اور نہ چھوٹی پر بڑی سے نکاح کیا جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2224]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5109]، [مسلم 1408]، [أبوداؤد 2065]، [ترمذي 1126]، [نسائي 3288]، [ابن ماجه 1929]، [أبويعلی 6641]، [ابن حبان 4068]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2214)
یعنی اگر کسی عورت کی بھتیجی سے نکاح کر لیا ہے تو اس کے جیتے جی اس کی پھوپھی سے نکاح نہ کرے، اور اگر بھانجی سے نکاح کر لیا ہے تو اس کے اوپر اس کی خالہ سے نکاح نہ کرے، اور اگر پھوپھی سے نکاح کر لیا ہے تو اس کی بھتیجی سے نہ کرے، اور اسی طرح خالہ کو کر لیا ہے تو بھانجی سے نکاح نہ کرے۔
(وحیدی)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2216
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة:"ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى ان يجمع بين المراة وعمتها والمراة وخالتها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ:"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا وَالْمَرْأَةِ وَخَالَتِهَا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا بھتیجی اور پھوپھی کے جمع کرنے سے اور بھانجی و خالہ کے ایک ساتھ جمع کرنے سے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو عند مالك في النكاح، [مكتبه الشامله نمبر: 2225]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5109، 5110]، [مسلم 1408]، [نسائي 3288]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2215)
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ کسی ایسی عورت سے نکاح کرنا منع ہے جس کی پھوپھی یا خالہ اس کے نکاح میں ہو، اور اس کے برعکس بھی کسی ایسی عورت سے نکاح کرنا جس کی بھتیجی اور بھانجی پہلے سے نکاح میں موجود ہو۔
ابن منذر نے کہا: اس پر علماء کا اجماع ہے، ایک روایت میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی منقول ہے کہ دو پھوپھیوں اور دو خالاؤں میں بھی جمع کرنا مکروہ ہے۔
امام قسطلانی رحمہ اللہ نے کہا: پھوپھی میں دادا کی بہن، نانا کی بہن، ان کے باپ کی بہن، اسی طرح خالہ میں نانی کی بہن، نانی کی ماں سب داخل ہیں اور اس کا قاعدۂ کلیہ یہ ہے کہ ان دو عورتوں کا نکاح میں جمع کرنا درست نہیں ہے کہ اگر ان میں سے ایک کو مرد فرض کریں تو دوسری عورت اس کی محرم ہو، البتہ اپنی بیوی کے ماموں کی بیٹی یا چچا کی بیٹی یا پھوپھی کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے، اسلام کا یہ وہ پرسنل لا ہے جس پر اسلام کو فخر ہے۔
اس نے اپنے پیروکاروں کے لئے ایک بہترین پرسنل لا دیا ہے۔
اس کے مقرر کردہ اصول و قوانین قیامت تک کے لئے کسی بھی ردّ و بدل سے بالا ہیں، دنیا میں کتنے ہی انقلابات آئیں، نوعِ انسانی میں کتنا ہی انقلاب برپا ہو، حالات خواہ کیسے ہی ہوں گے، مگر اسلامی قوانین اپنی جگہ برقرار رہیں گے، کسی کو بھی ان میں دست اندازی کا حق نہیں ہے۔
ہاں جو غلط قوانین لوگوں نے از خود بنا کر اسلام کے ذمہ لگا دیئے ہیں ان کا بدلنا بے حد ضروری ہے۔
(راز رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو عند مالك في النكاح
9. باب في النَّهْيِ عَنِ الشِّغَارِ:
9. نکاح شغار کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2217
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، قال:"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الشغار". قال مالك: والشغار: ان يزوج الرجل الآخر ابنته، على ان يزوجه الآخر ابنته بغير صداق، قيل لابي محمد: ترى بينهما نكاحا؟. قال: لا يعجبني.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِع، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الشِّغَارِ". قَالَ مَالِكٌ: وَالشِّغَارُ: أَنْ يُزَوِّجَ الرَّجُلُ الْآخَرَ ابْنَتَهُ، عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ الْآخَرُ ابْنَتَهُ بِغَيْرِ صَدَاقٍ، قِيلَ لِأَبِي مُحَمَّدٍ: تَرَى بَيْنَهُمَا نِكَاحًا؟. قَالَ: لَا يُعْجِبُنِي.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: اور شغار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی لڑکی یا بہن کا نکاح اس شرط کے ساتھ کرے کہ وہ دوسرا شخص اپنی بیٹی یا بہن کا بھی بنا مہر کے اس سے نکاح کر دے، امام دارمی رحمہ اللہ سے کہا گیا: کیا ایسا نکاح صحیح ہو گا؟ فرمایا: مجھے یہ پسند نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي وهو عند مالك في النكاح، [مكتبه الشامله نمبر: 2226]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5112]، [مسلم 1415]، [أبوداؤد 2074]، [ترمذي 1124]، [نسائي 3337]، [ابن ماجه 1883]، [أبويعلی 5795]، [ابن حبان 4152]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2216)
شغار کی تعریف امام مالک رحمہ اللہ سے اوپر ذکر کی جا چکی ہے، یہ بنا مہر کے ادلے بدلے کی شادی ہے کہ میں تیری شادی اپنی بہن یا بیٹی سے کرتا ہوں اس شرط پر کہ تو بھی بلا مہر کے اپنی بہن یا بیٹی کی شادی مجھ سے کر دے، اس طرح کا نکاح باجماعِ علماء ناجائز ہے، لیکن نکاح صحیح ہوگا یا نہیں اس میں اختلاف ہے۔
جمہور علماء اس کو باطل کہتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: نکاح صحیح ہوگا اور ہر ایک پر مہر مثل ادا کرنا لازم ہوگا۔
(وحیدی)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في النكاح
10. باب في نِكَاحِ الصَّالِحِينَ وَالصَّالِحَاتِ:
10. نیک و صالح مرد و عورت کے نکاح کا بیان
حدیث نمبر: 2218
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن إبراهيم بن عمر بن كيسان، عن ابيه، عن وهب بن ابي مغيث، حدثتني اسماء بنت ابي بكر، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "انكحوا الصالحين والصالحات". قال ابو محمد: وسقط علي من الحديث"فما تبعهم بعد فحسن".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ أَبِي مُغِيثٍ، حَدَّثَتْنِي أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَنْكِحُوا الصَّالِحِينَ وَالصَّالِحَاتِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: وَسَقَطَ عَلَيَّ مِنَ الْحَدِيثِ"فَمَا تَبِعَهُمْ بَعْدُ فَحَسَنٌ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صالح مرد و عورتوں کا نکاح کر دو۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اس حدیث میں مجھ سے یہ ساقط ہو گیا: جو کچھ بعد میں انہیں ملا وہ اچھا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2227]»
اس حدیث کو امام دارمی رحمہ اللہ کے علاوہ کسی نے ذکر نہیں کیا، اس کی سند حسن کے درجہ میں ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2217)
غالباً یہ حدیث آیتِ شریفہ: « ﴿وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ﴾ [النور: 32] » کی تائید میں ہے۔
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ: تم میں سے جو مرد مجرد ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے اچھے نیک غلام اور لونڈیوں کا بھی نکاح کر دو۔
اس آیت میں نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
11. باب النَّهْيِ عَنِ النِّكَاحِ بِغَيْرِ وَلِيٍّ:
11. بنا ولی کے نکاح کرنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2219
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا مالك بن إسماعيل، حدثنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن ابي بردة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا نكاح إلا بولي".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ".
ابوبردہ نے اپنے والد سے روایت کیا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بغیر ولی کے نکاح جائز نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2228]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2085]، [ترمذي 1101]، [ابن ماجه 1881]، [أبويعلی 7227]، [ابن حبان 4077]، [الموارد 1243]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2220
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا شريك، عن ابي إسحاق، عن ابي بردة، عن ابي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "لا نكاح إلا بولي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عِنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ".
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے بھی مذکورہ بالا حدیث اسی لفظ سے مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2229]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن ابوبردہ کی حدیث اس کی شاہد ہے۔ تخریج دیکھئے: [العلل للدارقطني 172/3] و [علل الحديث للرازي 1216]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.