سنن دارمي
من كتاب النكاح
نکاح کے مسائل
9. باب في النَّهْيِ عَنِ الشِّغَارِ:
نکاح شغار کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2217
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِع، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الشِّغَارِ". قَالَ مَالِكٌ: وَالشِّغَارُ: أَنْ يُزَوِّجَ الرَّجُلُ الْآخَرَ ابْنَتَهُ، عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ الْآخَرُ ابْنَتَهُ بِغَيْرِ صَدَاقٍ، قِيلَ لِأَبِي مُحَمَّدٍ: تَرَى بَيْنَهُمَا نِكَاحًا؟. قَالَ: لَا يُعْجِبُنِي.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: اور شغار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی لڑکی یا بہن کا نکاح اس شرط کے ساتھ کرے کہ وہ دوسرا شخص اپنی بیٹی یا بہن کا بھی بنا مہر کے اس سے نکاح کر دے، امام دارمی رحمہ اللہ سے کہا گیا: کیا ایسا نکاح صحیح ہو گا؟ فرمایا: مجھے یہ پسند نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده قوي وهو عند مالك في النكاح، [مكتبه الشامله نمبر: 2226]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5112]، [مسلم 1415]، [أبوداؤد 2074]، [ترمذي 1124]، [نسائي 3337]، [ابن ماجه 1883]، [أبويعلی 5795]، [ابن حبان 4152]
وضاحت: (تشریح حدیث 2216)
شغار کی تعریف امام مالک رحمہ اللہ سے اوپر ذکر کی جا چکی ہے، یہ بنا مہر کے ادلے بدلے کی شادی ہے کہ میں تیری شادی اپنی بہن یا بیٹی سے کرتا ہوں اس شرط پر کہ تو بھی بلا مہر کے اپنی بہن یا بیٹی کی شادی مجھ سے کر دے، اس طرح کا نکاح باجماعِ علماء ناجائز ہے، لیکن نکاح صحیح ہوگا یا نہیں اس میں اختلاف ہے۔
جمہور علماء اس کو باطل کہتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: نکاح صحیح ہوگا اور ہر ایک پر مہر مثل ادا کرنا لازم ہوگا۔
(وحیدی)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في النكاح