(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، عن يحيى بن ابي عمرو السيباني، عن عبد الله بن الديلمي، عن ابيه، ان اباه او ان رجلا منهم سال النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إنا قد خرجنا من حيث علمت، ونزلنا بين ظهراني من قد علمت، فمن ولينا؟ قال:"الله ورسوله". قالوا: يا رسول الله، إنا كنا اصحاب كرم وخمر، وإن الله قد حرم الخمر، فما نصنع بالكرم؟ قال:"اصنعوه زبيبا". قالوا: فما نصنع بالزبيب؟ قال: "انقعوه في الشنان، انقعوه على غدائكم، واشربوه على عشائكم، وانقعوه على عشائكم، واشربوه على غدائكم، فإنه إذا اتى عليه العصران، كان حلا قبل ان يكون خمرا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو السَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أَبَاهُ أَوْ أَنَّ رَجُلًا مِنْهُمْ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا قَدْ خَرَجْنَا مِنْ حَيْثُ عَلِمْتَ، وَنَزَلْنَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْ مَنْ قَدْ عَلِمْتَ، فَمَنْ وَلِيُّنَا؟ قَالَ:"اللَّهُ وَرَسُولُهُ". قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا أَصْحَابَ كَرْمٍ وَخَمْرٍ، وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ الْخَمْرَ، فَمَا نَصْنَعُ بِالْكَرْمِ؟ قَالَ:"اصْنَعُوهُ زَبِيبًا". قَالُوا: فَمَا نَصْنَعُ بِالزَّبِيبِ؟ قَالَ: "انْقَعُوهُ فِي الشِّنَانِ، انْقَعُوهُ عَلَى غَدَائِكُمْ، وَاشْرَبُوهُ عَلَى عَشَائِكُمْ، وَانْقَعُوهُ عَلَى عَشَائِكُمْ، وَاشْرَبُوهُ عَلَى غَدَائِكُمْ، فَإِنَّهُ إِذَا أَتَى عَلَيْهِ الْعَصْرَانِ، كَانَ حِلًّا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ خَمْرًا".
عبداللہ بن الدیلمی نے اپنے والد سے روایت کیا کہ ان کے والد نے یا ان کے قبیلہ کے کسی فرد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم جہاں سے نکل کر آئے ہیں اور کس کے پاس آئے ہیں آپ کو معلوم ہے، پس ہمارا ولی کون ہے؟ فرمایا: ”تمہارا ولی اللہ اور اس کا رسول ہے۔“ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم انگور اور شراب والے لوگ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے شراب کو حرام کر دیا ہے تو ہم سوکھے انگور (کشمش) کا کیا کریں؟ فرمایا: ”سکھا کر اس کی کشمش بنا لو“، عرض کیا: اس کا ہم کیا کریں گے؟ فرمایا: ”چمڑے کے مشکیزے میں اس کو رکھو اور اس کا شربت دوپہر کو بنا کر، شام کو شربت بنا کر دوپہر کے کھانے میں پی لیا کرو اور جب دو بار اس پر عصر کی نماز کا وقت گزر جائے تو شراب بننے سے پہلے تک اس کو پی سکتے ہو۔“
تخریج الحدیث: «محمد بن كثير المصيصي ضعيف وقد فصلنا القول فيه عند الحديث (6708) في " مسند الموصلي " ولكن تابعه عليه عدد من الثقات كما يتبين من مصادر التخريج. وهذا إسناد صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2154]» اس حدیث میں محمد بن کثیر مصیصی ضعیف ہیں لیکن دوسرے طرق سے بھی یہ حدیث مروی ہے اور درجۂ صحت کو پہنچ جاتی ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3710]، [نسائي 5752]، [طبراني 846، 851]، [أحمد 332/4، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2144) چمڑنے کے مشکیزے میں انگور کا شربت یا کشمش رکھنے سے جلدی تیزی نہیں آتی، لیکن مٹی کا مٹھورا یا گھڑا اگر ہر دن دھویا نہ جائے تو اس میں رکھے ہوئے شربت میں تیزی آ کر وہ جلدی نشہ آور ہو جاتا ہے، اسی طرح اگر کئی دن تک کھجور یا انگور کی نبیذ و شربت ایسے برتن میں رکھی رہے تو نشہ آور ہو جاتی ہے، اس لئے اس کے پینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت تک ایسا شربت پیتے تھے جب تک کہ اس میں تیزی نہ آتی، اگر مزہ بدل جاتا یا بو بدل جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کبھی نہ پیتے تھے۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: محمد بن كثير المصيصي ضعيف وقد فصلنا القول فيه عند الحديث (6708) في " مسند الموصلي " ولكن تابعه عليه عدد من الثقات كما يتبين من مصادر التخريج. وهذا إسناد صحيح
سعید بن جبیر نے کہا: میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے گھڑے (یا ٹھليا) کی نبیذ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ اس کے بعد میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ملاقات کی اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے قول کے بارے میں انہیں بتایا تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ابوعبدالرحمٰن نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن سعيد بن عامر لم يذكر فيمن رووا عن سعيد قبل اختلاطه. ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2155]» یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1997]، [أبوداؤد 3691]، [ابن حبان 5403]، [طبراني 43/12، 12420]
وضاحت: (تشریح حدیث 2145) شروع میں جب شراب حرام ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں میں نبیذ اور شربت بنانے سے منع کر دیا تھا جن میں شراب بنائی جاتی تھی، کیونکہ اس میں نشہ پیدا ہونے کا اندیشہ تھا، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کے برتن میں انگور، کھجور وغیرہ کا شربت بنانے کی اجازت دیدی تھی، خواہ وہ برتن مٹی کے ہوں یا پتھر یا چمڑے کے۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن سعيد بن عامر لم يذكر فيمن رووا عن سعيد قبل اختلاطه. ولكن الحديث صحيح
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دباء اور مزفت میں نبیذ نہ بنایا کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2156]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5587]، [مسلم 1992]، [أبوداؤد 3691، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2146) «دُبَاء» کدو کے توبنے کو کہتے ہیں اور «مُزَفَّت» روغن دار رال کا برتن۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں نبیذ بنانے سے منع کیا تھا۔ بخاری کی روایت میں «حَنْتَم» یعنی ٹھلیا یا لاکھی مرتبان اور «نَقِيْر» یعنی لکڑی کا بنا ہوا برتن۔ بعد میں یہ ممانعت جاتی رہی کیونکہ لوگوں کے دلوں میں ایمان راسخ تھا اور وہ نشہ آور شربت کو ہاتھ بھی نہ لگاتے تھے (رضی اللہ عنہم وارضاہم)۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو زيد، حدثنا شعبة، عن سلمة بن كهيل، قال: سمعت ابا الحكم، قال: سالت ابن عباس او سمعته سئل عن نبيذ الجر، فقال:"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نبيذ الجر والدباء". وسالت ابن الزبير، فقال مثل قول ابن عباس. قال: وقال ابن عباس:"من سره ان يحرم ما حرم الله ورسوله، او من كان محرما ما حرم الله ورسوله، فليحرم النبيذ". قال: وحدثني اخي، عن ابي سعيد الخدري، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "نهى عن الجر والدباء والمزفت، وعن البسر والتمر"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو زَيْدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْحَكَمِ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ أَوْ سَمِعْتُهُ سُئِلَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ، فَقَالَ:"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ". وَسَأَلْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ مِثْلَ قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:"مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُحَرِّمَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، أَوْ مَنْ كَانَ مُحَرِّمًا مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فَلْيُحَرِّمْ النَّبِيذَ". قَالَ: وَحَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "نَهَى عَنْ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ وَالْمُزَفَّتِ، وَعَنْ الْبُسْرِ وَالتَّمْرِ"..
ابوالحکم عمران بن الحارث نے کہا: میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا یا یہ کہا کہ میں نے سنا ان سے ٹھلیا کی شربت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھڑے اور کدو کے توبنے (میں نبیذ بنانے) سے منع فرمایا۔ میں نے سیدنا ابن الزبير رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مثل جواب دیا، اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جس کو اچھا لگے کہ وہ حرام کر لے اس چیز کو جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کر دیا ہے، یا یہ کہا کہ جو شخص حرام کرنا چاہے اس چیز کو جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے تو وہ نبیذ کو حرام سمجھے۔ راوی نے کہا: اور میرے بھائی نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھڑے، کدو کے تونبے، لاکھی، تارکول ملے ہوئے برتن سے اور کچی اور پکی (رطب اور پکی ہوئی) کھجور کی نبیذ بنانے سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2157]» یہ روایات مختلف طرق سے متعدد کتب حدیث میں موجود ہیں۔ دیکھے: [بخاري 5584، 5595]، [أحمد 27/1، 229]، [طبراني 152/12، 12738]، [أبويعلی 2344]۔ اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت [أبويعلی 1223، 1322]، [الطيالسي 1699] وغیرہ میں صحیح سند سے موجود ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2147) ان روایات سے مذکورہ بالا برتنوں میں جن میں شراب بنائی جاتی تھی جر، دباء، نقير و مرفت میں نبیذ بنانے سے منع کیا گیا ہے جس کا بیان پیچھے گذر چکا ہے، اسی طرح دو قسم کے پھل ملا کر اس کا شربت اور نبیذ بنانے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ اس سے نشہ پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہے، شراب کی حرمت سے پہلے عرب کے لوگ خام اور پختہ کھجور کی شراب کو بہت پسند کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام کر دیا، مزید تفصیل آگے آ رہی ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبیذ کو حرام کہا، یہ بطورِ احتیاط اور تقویٰ کے ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا ثابت بن يزيد، حدثنا عاصم، عن فضيل بن زيد الرقاشي، انه اتى عبد الله بن مغفل، فقال: اخبرني بما يحرم علينا من الشراب، فقال: الخمر. قلت: هو في القرآن؟ قال: ما احدثك إلا ما سمعت محمدا صلى الله عليه وسلم بدا بالاسم او بالرسالة، قال: فقال: "نهى عن الدباء والحنتم والنقير".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ زَيْدٍ الرَّقَاشِيِّ، أَنَّهُ أَتَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ، فَقَالَ: أَخْبِرْنِي بِمَا يَحْرُمُ عَلَيْنَا مِنْ الشَّرَابِ، فَقَالَ: الْخَمْرُ. قُلْتُ: هُوَ فِي الْقُرْآنِ؟ قَالَ: مَا أُحَدِّثُكَ إِلَّا مَا سَمِعْتُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَأَ بِالِاسْمِ أَوْ بِالرِّسَالَةِ، قَالَ: فَقَالَ: "نَهَى عَنْ الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالنَّقِيرِ".
فضیل بن زید الرقاشی، سیدنا عبدالله بن مغفل رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے بتایئے کون سا مشروب ہمارے لئے حرام ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ شراب حرام ہے، فضیل نے کہا: کیا یہ قرآن میں ہے؟ فرمایا: میں نے تم سے وہی بیان کیا جو میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ راوی نے کہا: یاد نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا یا کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا، انہوں نے دباء (کدو کا تونبا)، حنتم (لاکھی ٹھلیا یا لاکھی مرتبان)، نقیر لکڑی کے بنے ہوئے برتن سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2158]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند الطيالسي 1716]، [طبراني فى الأوسط 5276]، [مجمع البحرين 4117]
وضاحت: (تشریح حدیث 2148) یعنی دباء، حنتم اور نقیر میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا، ان برتنوں میں شراب بنائی جاتی تھی اس لئے ان میں نبیذ بنانے سے شروع میں منع کیا گیا لیکن بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں میں نبیذ بنانے کی اجازت دیدی، لہٰذا ان روایات کا حکم منسوخ ہو گیا جیسا کہ پیچھے گذر چکا ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، وسعيد بن عامر، واللفظ ليزيد، قالا: اخبرنا هشام، عن يحيى، عن عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "لا تنتبذوا الزهو والرطب جميعا، ولا تنتبذوا الزبيب والتمر جميعا، وانتبذوا كل واحد منهما على حدة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَسَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، وَاللَّفْظُ لِيَزِيدَ، قَالَا: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا تَنْتَبِذُوا الزَّهْوَ وَالرُّطَبَ جَمِيعًا، وَلَا تَنْتَبِذُوا الزَّبِيبَ وَالتَّمْرَ جَمِيعًا، وَانْتَبِذُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى حِدَةٍ".
سیدنا ابوقتاده رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچی اور خشک کھجور کی ایک ساتھ نبیذ نہ بناؤ، اور اسی طرح انگور اور کھجور بھی ایک ساتھ ملا کر نبیذ نہ بناؤ، اور ہر پھل کی علاحدہ علیحدہ نبیذ بنا سکتے ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2159]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5602]، [مسلم 1988]، [أبوداؤد 3704]، [نسائي 5566]، [ابن ماجه 3397]، [أحمد 310/5]
وضاحت: (تشریح حدیث 2149) خليط انگور اور کھجور یا کچی اور پکی کھجور کو مکس کر کے اس کا شربت (نبیذ) بنانے کو کہتے ہیں، نبیذ حلال ہے بشرطیکہ اس میں نشہ نہ ہو لیکن مکس کئے ہوئے خلیط سے منع کیا، اس خیال سے کہ اس میں جلدی نشہ پیدا ہو جاتا ہوگا۔ امام مالک و احمد رحمہما اللہ کے نزدیک اس طرح کا خليط حرام ہے چاہے اس میں نشہ پیدا نہ ہوا ہو، جیسا کہ اوپر والی حدیث میں مطلقاً نہی اور ممانعت ہے۔ اکثر علماء نے کہا ہے کہ اس خليط میں جب نشہ پیدا ہو جائے تب ہی حرام ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: مذکورہ بالا حدیث میں نہی تنزیہی ہے نہی تحریمی نہیں، انتہیٰ کلامہ۔ بہتر یہی ہے کہ حدیث میں جس کی ممانعت ہے اس سے پرہیز کرنا چاہیے، نہی چاہے تنزیہی ہو یا تحریمی۔ اسی طرح سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چیزوں کو ملاکر نبیذ بنانے سے منع کیا۔ پچھلے باب میں اس کا ذکر گزر چکا ہے، نیز دیکھئے: [نسائي 5568] و [أحمد 299/5] ۔
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر، اخبرنا شعبة، عن سماك، عن علقمة بن وائل، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "لا تقولوا: الكرم، وقولوا: العنب او الحبلة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا تَقُولُوا: الْكَرْمَ، وَقُولُوا: الْعِنَبَ أَوْ الْحَبَلَةَ".
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انگور کو کرم مت کہو بلکہ عنب یا حبلہ کہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2160]» اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2248]، [أبويعلی 5929]، [ابن حبان 5832]، [الحميدي 1130]
وضاحت: (تشریح حدیث 2150) عرب کے لوگ انگور اور انگوری شراب کو کرم کہتے تھے، کرم کے معانی بزرگی، عزت اور مہربانی کے ہیں، وہ سمجھتے تھے کہ انگوری شراب کے پینے سے بھی انسان میں کرم پیدا ہوتا ہے، جب شراب حرام ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کا نام بدلنے کی ممانعت کر دی اس خیال سے کہ یہ نام شراب کی یاد نہ دلا دے، دوسرے یہ کہ شراب کی عزت نہ کی جاوے، مسلم شریف کی صحیح روایت میں ہے کہ کرم تو مومن کا دل ہے۔ (وحیدی)۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن السدي، عن يحيى بن عباد، عن انس بن مالك، قال:"كان في حجر ابي طلحة يتامى، فاشترى لهم خمرا، فلما نزل تحريم الخمر، اتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فقال: اجعله خلا؟ قال:"لا"، فاهراقه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ السُّدِّيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:"كَانَ فِي حِجْرِ أَبِي طَلْحَةَ يَتَامَى، فَاشْتَرَى لَهُمْ خَمْرًا، فَلَمَّا نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: أَجْعَلُهُ خَلًّا؟ قَالَ:"لَا"، فَأَهْرَاقَهُ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: کچھ یتیم بچے سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے زیر پرورش تھے، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان کے لئے شراب خریدی تو اس وقت شراب کی حرمت (والی آیت) نازل ہوئی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کا ذکر کیا اور کہا کہ میں اس شراب کا سرکہ بنا لوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، چنانچہ انہوں نے اس کو لڑھکا (بہا) دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل إسماعيل السدي، [مكتبه الشامله نمبر: 2161]» یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1983]، [أبويعلی 4045]، [التمهيد 148/4، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2151) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح شراب حرام ہے اسی طرح اس کا سرکہ بھی حرام ہے، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سرکہ بنانے سے منع فرمایا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل إسماعيل السدي
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، حدثنا الزهري، عن انس بن مالك، انه راى رسول الله صلى الله عليه وسلم شرب لبنا، وعن يساره ابو بكر، وعن يمينه رجل اعرابي، فاعطى الاعرابي فضله، ثم قال: "الايمن فالايمن".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَرِبَ لَبَنًا، وَعَنْ يَسَارِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَعَنْ يَمِينِهِ رَجُلٌ أَعْرَابِيٌّ، فَأَعْطَى الْأَعْرَابِيَّ فَضْلَهُ، ثُمَّ قَالَ: "الْأَيْمَنَ فَالْأَيْمَنَ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور دائیں طرف ایک دیہاتی آدمی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچا ہوا دودھ اس دیہاتی کو دیا، پھر فرمایا: ”پہلے دائیں طرف سے، پھر اس کے دائیں طرف سے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2162]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5619]، [مسلم 2029]، [أبوداؤد 3726]، [ترمذي 1893]، [ابن ماجه 3425]، [أبويعلی 3552]، [ابن حبان 5333]، [الحميدي 1216]
وضاحت: (تشریح حدیث 2152) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچا ہوا مشروب پینے والا پہلے اپنے دائیں طرف والے کو دے، وہ اپنے دائیں طرف والے کو، مذکورہ بالا حدیث میں اسی کی رعایت کی گئی ہے حالانکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا درجہ بہت بلند تھا لیکن اسی قاعدے کے مطابق ایک دیہاتی کو ترجیح دی گئی۔