سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں کسی رات میں پڑھے گا تو وہ اس کو کافی ہیں۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 1525) یعنی ہر رنج اور برائی سے یہ دو آیتیں اسے کافی ہوں گی، اور بعض نے کہا تہجد اور شب بیداری سے کافی ہوں گی، کیونکہ بہت اہم دعائیں ہیں، اگر اللہ تعالیٰ قبول فرما لے تو بہت کافی ہیں، اس سے ان آیات کی فضیلت معلوم ہوئی۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [فتح الباري 56/9] ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ نے کسی چیز کی اتنی اجازت نہیں دی جتنی اپنے نبی کو قرآن پاک جہر (بلند آواز) اور خوش الحانی سے پڑھنے کی اجازت دی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1529]» اس روایت کی سند حسن ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5024]، [مسلم 792]، [أبويعلی 5959]، [ابن حبان 751، 752]، [الحميدي 979]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن ولكن الحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا ابن عيينة، عن الزهري، قال: ابن عيينة: اراه عن عروة، عن عائشة قالت: سمع النبي صلى الله عليه وسلم ابا موسى وهو يقرا، فقال:"لقد اوتي هذا من مزامير آل داود".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: ابْنُ عُيَيْنَةَ: أُرَاهُ عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا مُوسَى وَهُوَ يَقْرَأُ، فَقَالَ:"لَقَدْ أُوتِيَ هَذَا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو قرأت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: ”ان کو آل داؤد کی آوازوں میں سے آواز دی گئی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1530]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1848]، [ابن حبان 7195]، [موارد الظمآن 2263]، [الحميدي 284]
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن احمد، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "ما اذن الله لشيء ما اذن لنبي يتغنى بالقرآن". قال ابو محمد: يريد به الاستغناء.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَا أَذِنَ اللَّهُ لِشَيْءٍ مَا أَذِنَ لِنَبِيٍّ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: يُرِيدُ بِهِ الِاسْتِغْنَاءَ.
سیدنا ابوہریره رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ایسی محبت (و توجہ) سے کسی چیز کو نہیں سنتا جیسے کسی نبی کو خوش الحانی سے قرآن پڑھتے سنتا ہے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: «تغني بالقرآن» سے مراد استغناء ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1532]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ تخریج (1527) نمبر پرگذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1526 سے 1530) «(مَا أَذِنَ اللّٰهُ)» اذن اور سمع دونوں کے معنی لغت میں سننے کے ہیں اور یہ الله تعالیٰ کی صفت ہے اور مومن کو اسی پر بلا کیف مثل اور صفات کے ایمان لانا چاہئے (علامہ وحیدالزماں، شرح مسلم)، اور «من لم يتغن بالقرآن» کی تفسیر میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔ بعض نے کہا: جو قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے، مد و شد کی رعایت نہ کرے، بشرطیکہ کوئی حرف اپنی حد سے کم زیادہ نہ ہو، اور راگنی کو دخل نہ دے (علامہ وحیدالزماں، شرح ابی داؤد)، ایک روایت میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: قرآن مجید کی تلاوت میں سب سے زیادہ پسندیدہ آواز کون سی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس تلاوت سے اللہ تعالیٰ کا ڈر پیدا ہو“، یہ بھی روایت ہے کہ قرآن مجید کو اہلِ عرب کے لہجے میں پڑھو، گانے والوں اور اہلِ کتاب کے لب و لہجہ سے قرآن پاک کی تلاوت سے پرہیز کرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد ایک قوم ایسی پیدا ہوگی جو قرآن مجید کو گویّوں کی طرح گا گا کر پڑھے گی، یہ تلاوت ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گی، ان کے دل فتنے میں مبتلا ہوں گے۔ “ ایسی تلاوت قطعاً ممنوع ہے۔ قرآن کریم کو ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ متوسط آواز سے پڑھنا مسنون ہے۔ خوش الحانی اور تغنی بالقرآن یہی ہے، گا کر پڑھنے کو مالکیہ نے حرام اور شافعیہ و حنفیہ نے مکروہ قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی حرف کی ادائیگی میں خلل نہ آئے، اگر حرف میں تغیر ہو جائے تو بالاجماع حرام ہے (شرح بخاری، مولانا راز صاحب رحمہ اللہ)۔
(حديث مرفوع) اخبرنا بشر بن عمر الزهراني، حدثنا شعبة، عن خبيب بن عبد الرحمن، عن حفص بن عاصم، عن ابي سعيد بن المعلى، قال: مر بي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:"الم يقل الله: يايها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم سورة الانفال آية 24"، ثم قال: "الا اعلمك سورة اعظم سورة من القرآن قبل ان اخرج من المسجد؟". فلما اراد ان يخرج، قال:"الحمد لله رب العالمين، وهي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي اوتيتم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّهْرَانِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى، قَالَ: مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:"أَلَمْ يَقُلْ اللَّهُ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ سورة الأنفال آية 24"، ثُمَّ قَالَ: "أَلَا أُعَلِّمُكَ سُورَةً أَعْظَمَ سُورَةٍ مِنْ الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنْ الْمَسْجِدِ؟". فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ، قَالَ:"الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَهِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُمْ".
سیدنا ابوسعید بن معلى رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گزرے تو کہا: ”کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں پڑھا: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ ...»[انفال: 24/8] یعنی جب الله اور اس کے رسول تمہیں بلائیں تو ہاں میں جواب دو“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے ایک ایسی سورہ کی تعلیم نہ دوں جو قرآن کی عظیم ترین سورہ ہے؟“ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکلنے کا ارادہ فرمایا تو کہا: ” «اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» یہی وہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو تمہیں دی گئی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1533]» یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4474]، [أبويعلی 6837]، [ابن حبان 777]
وضاحت: (تشریح حدیث 1530) سبع مثانی سے مراد سات آیات جو بار بار پڑھی جائیں اور اشارہ ہے اس آیتِ شریفہ کی طرف: « ﴿وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ﴾[الحجر: 87] » اس حدیث کی تفصیل بخاری شریف کی روایت میں ہے۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت میں مجھے بلایا، میں نے کوئی جواب نہ دیا، اس کے بعد میں نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کیا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں سنا ...... الخ۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قرآن کریم تین دن سے کم میں پڑھا اس نے کچھ نہیں سمجھا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1534]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 195/2]، [ترمذي 2950]، [أبوداؤد 1394]
وضاحت: (تشریح حدیث 1531) بعض اہلِ ظاہر کے نزدیک تین دن سے کم میں قرآن پاک ختم کرنا حرام ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ قرآن پاک چالیس دن میں پڑھو، اور کچھ روایات سات دن کی بھی ہیں۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: قرآن پاک ختم کرنے کی کوئی حد نہیں، جب دل لگے اور طاقت ہو پڑھے، اور بہتر یہ ہے کہ سات دن یا کم از کم تین دن سے کم میں ختم نہ کرے، اور معانی و مطالب پر غور و فکر کر کے قرآن پڑھے کیونکہ مطلب سمجھتے ہوئے قرآن پڑھنا باعثِ اجر و ثواب اور مطلوب و مقصود ہے۔ شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ نے ناچیز سے فرمایا تھا: مہینے میں ایک بار ضرور قرآن پاک ختم کر لینا چاہیے۔ آج کل قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے کم نظر آتے ہیں جو ہجرِ قرآن (قرآن کو چھوڑ دینے) کی ایک صورت ہے، جو قرآن پاک کی اس تنبیہ: « ﴿وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا﴾[الفرقان: 30] » یعنی ”قیامت کے دن رسول کہیں گے: اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ “ اس لئے روزانہ کچھ نہ کچھ قرآن پاک ضرور پڑھنا چاہیے اور اگر ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے تو نور علی نور ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قرآن پاک کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے ہر حرف پر ایک سے دس تک نیکیاں ہیں ......“، [ترمذي 2910] ۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا هشام، عن يحيى، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "إذا نودي بالاذان، ادبر الشيطان له ضراط حتى لا يسمع الاذان، فإذا قضي الاذان، اقبل، فإذا ثوب، ادبر، فإذا قضي التثويب، اقبل حتى يخطر بين المرء ونفسه فيقول: اذكر كذا، اذكر كذا، لما لم يكن يعني يذكر، حتى يظل الرجل إن يدري كم صلى، فإذا لم يدر احدكم كم صلى ثلاثا ام اربعا، فليسجد سجدتين وهو جالس".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا نُودِيَ بِالْأَذَانِ، أَدْبَرَ الشَّيْطَانُ لَهُ ضُرَاطٌ حَتَّى لَا يَسْمَعَ الْأَذَانَ، فَإِذَا قُضِيَ الْأَذَانُ، أَقْبَلَ، فَإِذَا ثُوِّبَ، أَدْبَرَ، فَإِذَا قُضِيَ التَّثْوِيبُ، أَقْبَلَ حَتَّى يَخْطِرَ بَيْنَ الْمَرْءِ وَنَفْسِهِ فَيَقُولُ: اذْكُرْ كَذَا، اذْكُرْ كَذَا، لِمَا لَمْ يَكُنْ يَعْنِي يَذْكُرُ، حَتَّى يَظَلَّ الرَّجُلُ إِنْ يَدْرِي كَمْ صَلَّى، فَإِذَا لَمْ يَدْرِ أَحَدُكُمْ كَمْ صَلَّى ثَلَاثًا أَمْ أَرْبَعًا، فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لئے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ موڑ کر ریاح خارج کرتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے، جب اذان پوری ہو جاتی ہے تو وہ (مردود) پھر آ جاتا ہے، اور جب تکبیر ہونے لگتی ہے تو بھاگ جاتا ہے، اور جب اقامت ختم ہو جاتی ہے تو پھر آ جاتا ہے اور آدمی کے دل میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے، کہتا ہے فلاں فلاں بات یاد کرو، وہ باتیں یاد دلاتا ہے جو اس نمازی کے ذہن میں نہ تھیں، اس طرح آدمی کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے، سو تم میں سے کوئی جب نہ یاد رکھ سکے کہ اس نے تین یا چار کتنی رکعت نماز پڑھی ہے تو وہ بیٹھے بیٹھے ہی دو سجدے کرلے (یعنی سجدہ سہو کر لے)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1535]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1222]، [مسلم 389]، [أبويعلی 5958]، [ابن حبان 16، 1662]
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نہ جان سکے کہ اس نے تین رکعت نماز پڑھی ہے یا چار رکعت تو وہ اٹھے اور ایک رکعت اور پڑھ لے، پھر دو سجدہ سہو کر لے، اگر وہ رکعت پانچویں ہو گی تو یہ سجدے مل کر اس کی نماز دوگانہ ہو جائے گی، اور چوتھی رکعت ہو گی تو یہ دو سجدے شیطان کو ذلیل کریں گے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: میں اسی کا قائل و عامل ہوں۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1536]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 571]، [أبوداؤد 1024]، [نسائي 1237]، [ابن ماجه 1210]، [ابن حبان 2663]، [الحميدي 1141]
وضاحت: (تشریح احادیث 1532 سے 1534) یہاں سے امام دارمی رحمہ اللہ نے سجودِ سہو کا ذکر شروع کیا ہے۔ پہلی حدیث میں ہے کہ شیطان وسوسے ڈالتا ہے اور نمازی بھول جاتا ہے کہ اس نے کتنی رکعت نماز پڑھی، یقین پر بنا کرے یعنی چار رکعت پر یقین ہو تو وہ سجدہ سہو کر لے، اور شک میں ہو، یقین نہ ہو سکے کہ تین رکعت پڑھیں یا چار رکعت تو ایسی صورت میں ایک رکعت اور پڑھ لے، پھر سجدۂ سہو کرے، اب مسئلہ یہ ہے کہ سلام پھیرنے سے پہلے سجدے کرے یا بعد میں، تو دونوں طرح کے ثبوت ہیں جس کی تفصیل ان شاء اللہ آگے آرہی ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، انبانا ابن عون، عن محمد، عن ابي هريرة، قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم إحدى صلاتي العشي، فصلى ركعتين، ثم سلم وقام إلى خشبة معترضة في المسجد فوضع يده عليها قال يزيد: وارانا ابن عون، ووضع كفيه إحداهما على ظهر الاخرى، وادخل اصابعه العليا في السفلى واضعا وقام كانه غضبان، قال: فخرج السرعان من الناس وجعلوا يقولون: قصرت الصلاة، قصرت الصلاة. وفي القوم ابو بكر وعمر، فلم يتكلما، وفي القوم رجل طويل اليدين يسمى ذو اليدين، فقال: يا رسول الله، انسيت الصلاة ام قصرت؟ فقال:"ما نسيت ولا قصرت الصلاة"فقال:"او كذلك؟"قالوا: نعم. قال: فرجع "فاتم ما بقي ثم سلم وكبر فسجد طويلا، ثم رفع راسه، فكبر وسجد مثل ما سجد، ثم رفع راسه وانصرف".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبأَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَى صَلَاتَيْ الْعَشِيِّ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ وَقَامَ إِلَى خَشَبَةٍ مُعْتَرِضَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا قَالَ يَزِيدُ: وَأَرَانَا ابْنُ عَوْنٍ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى ظَهْرِ الْأُخْرَى، وَأَدْخَلَ أَصَابِعَهُ الْعُلْيَا فِي السُّفْلَى وَاضِعًا وَقَامَ كَأَنَّهُ غَضْبَانُ، قَالَ: فَخَرَجَ السَّرَعَانُ مِنْ النَّاسِ وَجَعَلُوا يَقُولُونَ: قُصِرَتْ الصَّلَاةُ، قُصِرَتْ الصَّلَاةُ. وَفِي الْقَوْمِ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، فَلَمْ يَتَكَلَّمَا، وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ طَوِيلُ الْيَدَيْنِ يُسَمَّى ذُو الْيَدَيْنِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَسِيتَ الصَّلَاةَ أَمْ قُصِرَتْ؟ فَقَالَ:"مَا نَسِيتُ وَلَا قُصِرَتْ الصَّلَاةُ"فَقَالَ:"أَوَ كَذَلِكَ؟"قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ: فَرَجَعَ "فَأَتَمَّ مَا بَقِيَ ثُمَّ سَلَّمَ وَكَبَّرَ فَسَجَدَ طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَكَبَّرَ وَسَجَدَ مِثْلَ مَا سَجَدَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ وَانْصَرَفَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوپہر کی دو نمازوں میں سے کوئی ایک نماز پڑھائی اور دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں رکھی ایک لکڑی کے پاس کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھ سے اس کا سہارا لیا، یزید بن ہارون نے کہا: ابن عون نے ہمیں اس طرح ہاتھ رکھ کر بتایا کہ ایک ہاتھ کو دوسرے کی پشت پر رکھا اور اوپر والے ہاتھ کی انگلیاں نیچے والے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ غصے میں ہیں، جو لوگ جلدی نکلنے والے تھے نکل گئے اور کہنے لگے کہ نماز کم کر دی گئی، نماز کم کر دی گئی، حاضرین میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے لیکن انہیں بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی، انہیں لوگوں میں سے ایک شخص تھے جنہیں ذوالیدین (لمبے ہاتھ والا) کہا جاتا تھا، انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کر دی گئی ہے؟ فرمایا: ”نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کم کی گئی ہے“، اور آپ نے حاضرین سے پوچھا: ”کیا ایسا ہوا ہے؟“(یعنی نماز میں کوئی کمی رہ گئی ہے)، عرض کیا: جی ہاں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹے اور نماز پوری کی، پھر سلام پھیرا اور پھر الله اکبر کہا اور لمبا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا، اس کے بعد پھر تکبیر کہی اور پہلے سجدے کی طرح دوسرا سجدہ کیا، پھر اپنا سر مبارک سجدے سے اٹھایا اور مڑ گئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1537]» اس حدیث کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 482]، [مسلم 573]، [أبوداؤد 1008]، [ترمذي 399]، [أبويعلی 5860]، [ابن حبان 2249]، [الحميدي 1013]
وضاحت: (تشریح حدیث 1534) بخاری شریف کی روایت میں ہے: عمران بن حصین نے کہا: پھر سلام پھیرا۔ یعنی سلام کی تصریح ہے۔