سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر

سنن دارمي
نماز کے مسائل
172. باب في كَمْ يُخْتَمُ الْقُرْآنُ:
172. کتنے دن میں قرآن پاک ختم کرنا چاہئے؟
حدیث نمبر: 1532
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن المنهال، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن ابي العلاء: يزيد بن عبد الله، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يفقه من قرا القرآن في اقل من ثلاث".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ: يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَفْقَهُ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قرآن کریم تین دن سے کم میں پڑھا اس نے کچھ نہیں سمجھا۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 1531)
بعض اہلِ ظاہر کے نزدیک تین دن سے کم میں قرآن پاک ختم کرنا حرام ہے۔
بعض روایات میں ہے کہ قرآن پاک چالیس دن میں پڑھو، اور کچھ روایات سات دن کی بھی ہیں۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: قرآن پاک ختم کرنے کی کوئی حد نہیں، جب دل لگے اور طاقت ہو پڑھے، اور بہتر یہ ہے کہ سات دن یا کم از کم تین دن سے کم میں ختم نہ کرے، اور معانی و مطالب پر غور و فکر کر کے قرآن پڑھے کیونکہ مطلب سمجھتے ہوئے قرآن پڑھنا باعثِ اجر و ثواب اور مطلوب و مقصود ہے۔
شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ نے ناچیز سے فرمایا تھا: مہینے میں ایک بار ضرور قرآن پاک ختم کر لینا چاہیے۔
آج کل قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے کم نظر آتے ہیں جو ہجرِ قرآن (قرآن کو چھوڑ دینے) کی ایک صورت ہے، جو قرآن پاک کی اس تنبیہ: « ﴿وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا﴾ [الفرقان: 30] » یعنی قیامت کے دن رسول کہیں گے: اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔
اس لئے روزانہ کچھ نہ کچھ قرآن پاک ضرور پڑھنا چاہیے اور اگر ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے تو نور علی نور ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قرآن پاک کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے ہر حرف پر ایک سے دس تک نیکیاں ہیں ......، [ترمذي 2910] ۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1534]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 195/2]، [ترمذي 2950]، [أبوداؤد 1394]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.