سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نماز کے مسائل
149. باب: «إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلاَّ الْمَكْتُوبَةُ» :
149. جب جماعت کھڑی ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں
حدیث نمبر: 1486
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عاصم، عن زكريا بن إسحاق، عن عمرو بن دينار، عن سليمان بن يسار، عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا اقيمت الصلاة، فلا صلاة إلا المكتوبة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ، فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز کی اقامت کہی جائے تو سوائے فرض نماز کے کوئی نماز نہیں۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1488]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 710]، [أبوداؤد 1266]، [ترمذي 421]، [نسائي 864]، [ابن ماجه 1151]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 1487
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو حفص عمرو بن علي الفلاس، حدثنا غندر، عن شعبة، عن ورقاء، عن عمرو بن دينار، عن عطاء بن يسار، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلَّاسُ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ وَرْقَاءَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
اس سند سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی روایت کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1489]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [أبويعلی 6379]، [ابن حبان 2190]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1488
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن حفص بن عاصم بن عمر، عن ابن بحينة، قال: اقيمت الصلاة، فراى النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي الركعتين، فلما قضى النبي صلى الله عليه وسلم صلاته، لاث به الناس، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: "اتصلي الصبح اربعا؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ بُحَيْنَةَ، قَالَ: أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ، فَرَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ، لَاثَ بِهِ النَّاسُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَتُصَلِّي الصُّبْحَ أَرْبَعًا؟".
سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نماز کی اقامت ہو چکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایسے شخص پر پڑی جو دو رکعت سنت پڑھ رہا تھا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے اسے گھیر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو (فجر)، صبح کی چار رکعتیں پڑھتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1490]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 663]، [مسلم 711]، [نسائي 866]، [ابن ماجه 1153]، [أحمد 345/5]، [ابن ابي شيبه 253/2]، [شرح معاني الآثار 372/1]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1485 سے 1488)
یعنی اقامت (تکبیر) کے بعد کوئی نماز فرض نماز کے علاوہ پڑھنا حیرت انگیز اور غیر معروف تھا، اسی لئے صحابہ کرام انہیں گھیر کر بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکیر کرتے ہوئے فرمایا: کیا صبح کی نماز چار رکعت پڑھتے ہو؟

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1489
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا مسلم، حدثنا حماد بن سلمة، عن عمرو بن دينار، عن عطاء بن يسار، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "إذا اقيمت الصلاة، فلا صلاة إلا المكتوبة". قال ابو محمد: إذا كان في بيته، فالبيت اهون.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ، فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: إِذَا كَانَ فِي بَيْتِهِ، فَالْبَيْتُ أَهْوَنُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز کی اقامت کہہ دی جائے (یعنی تکبیر)، تو پھر سوائے فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر گھر میں نماز پڑھ رہا ہو اور مسجد میں اقامت کہی جائے تو یہ نسبتاً آسان ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وقد اختلف على عمرو بن دينار في رفعه ووقفه ولكن من رفعه ثقة والرفع زيادة وزيادة الثقة مقبولة، [مكتبه الشامله نمبر: 1491]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے، اور حوالہ گذر چکا ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 1488)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ جب جماعت کھڑی ہو جائے تو پھر سنتیں نہ پڑ ھے بلکہ جماعت میں شریک ہو جائے، یہ حکم عام اور سب سنتوں کو شامل ہے چاہے وہ فجر کی ہی سنیں کیوں نہ ہوں۔
اکثر علماء کا یہی قول ہے، اور بعد نمازِ فجر کے اختیار ہے چاہے تو اس وقت سنتیں پڑھ لے چاہے آفتاب نکلنے کے بعد پڑھے، جو لوگ اقامت کے بعد بھی سنتیں پڑھنے لگ جاتے ہیں وہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح مخالفت کرتے ہیں، انہیں یہ مخالفت ترک کر دینی چاہیے ورنہ انجام برا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وقد اختلف على عمرو بن دينار في رفعه ووقفه ولكن من رفعه ثقة والرفع زيادة وزيادة الثقة مقبولة
150. باب في أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ في أَوَّلِ النَّهَارِ:
150. دن کے شروع میں چار رکعت نماز کا بیان
حدیث نمبر: 1490
Save to word اعراب
(حديث قدسي) اخبرنا اخبرنا ابو النعمان، حدثنا معتمر بن سليمان، عن برد، حدثني سليمان بن موسى، عن مكحول، عن كثير بن مرة الحضرمي، عن قيس الجذامي، عن نعيم بن همار الغطفاني، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "قال الله تعالى: ابن آدم، صل لي اربع ركعات من اول النهار، اكفك آخره".(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ بُرْدٍ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ قَيْسٍ الْجُذَامِيِّ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ هَمَّارٍ الْغَطَفَانِيِّ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ابْنَ آدَمَ، صَلِّ لِي أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ، أَكْفِكَ آخِرَهُ".
نعیم بن ہمار غطفانی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اے آدم کے بیٹے! دن کے شروع میں میرے لئے چار رکعت نماز پڑھ لے، دن کے آخر تک میں تیرے لئے کافی ہوں گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1492]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1289]، [ابن حبان 2533]، [موارد الظمآن 634]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1489)
یہ چار رکعت دو دو رکعت کر کے پڑھی جائیں اور یہ اشراق کی نماز ہے جو آفتاب کے ایک یا دو نیزے بلند ہونے پر دن کے شروع میں پڑھی جاتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
151. باب صَلاَةِ الضُّحَى:
151. صلاۃ الضحیٰ کا بیان
حدیث نمبر: 1491
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، قال: عمرو بن مرة انباني، قال: سمعت ابن ابي ليلى يقول: ما اخبرنا احد انه راى النبي صلى الله عليه وسلم يصلي الضحى غير ام هانئ، فإنها ذكرت انه يوم فتح مكة "اغتسل في بيتها، ثم صلى ثمان ركعات، قالت: ولم اره صلى صلاة اخف منها، غير انه يتم الركوع والسجود".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ أَنْبَأَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى يَقُولُ: مَا أَخْبَرَنَا أَحَدٌ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى غَيْرُ أُمِّ هَانِئٍ، فَإِنَّهَا ذَكَرَتْ أَنَّهُ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ "اغْتَسَلَ فِي بَيْتِهَا، ثُمَّ صَلَّى ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، قَالَتْ: وَلَمْ أَرَهُ صَلَّى صَلَاةً أَخَفَّ مِنْهَا، غَيْرَ أَنَّهُ يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ".
ابن ابی لیلی کہتے ہیں: ہمیں سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے سوا کسی نے یہ اطلاع نہیں دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز پڑھی، چنانچہ انہوں نے (سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے) ذکر کیا کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں غسل کیا، پھر آٹھ رکعت نماز پڑھی اور کہا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی اتنی ہلکی نماز پڑھتے نہیں دیکھا، ہاں اس نماز میں بھی رکوع و سجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے اطمینان سے اچھی طرح کرتے رہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1493]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1176]، [مسلم 336/80]، [أبوداؤد 1291]، [ترمذي 474]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1492
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا مالك، عن ابي النضر، ان ابا مرة مولى عقيل بن ابي طالب اخبره، انه سمع ام هانئ بنت ابي طالب تحدث انها ذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح فوجدته يغتسل، وفاطمة بنته تستره بثوب. قالت: فسلمت عليه وذلك ضحى. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"من هذه؟". فقلت: انا ام هانئ. قالت: "فلما فرغ من غسله، قام فصلى ثمان ركعات ملتحفا في ثوب واحد، ثم انصرف". فقلت: يا رسول الله، زعم ابن امي انه قاتل رجلا اجرته: فلان بن هبيرة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"قد اجرنا من اجرت يا ام هانئ"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ تُحَدِّثُ أَنَّهَا ذَهَبَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ فَوَجَدَتْهُ يَغْتَسِلُ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُهُ تَسْتُرُهُ بِثَوْبٍ. قَالَتْ: فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَذَلِكَ ضُحًى. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَنْ هَذِهِ؟". فَقُلْتُ: أَنَا أُمُّ هَانِئٍ. قَالَتْ: "فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ، قَامَ فَصَلَّى ثَمَانَ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ انْصَرَفَ". فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ ابْنُ أُمِّي أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلًا أَجَرْتُهُ: فُلَانَ بْنَ هُبَيْرَةَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ"..
سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ وہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل کرتے ہوئے پایا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پردہ کئے ہوئے تھیں، سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے سلام کیا اور یہ چاشت کا وقت تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: کہ میں ام ہانی ہوں، انہوں نے کہا: پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر آٹھ رکعت نماز ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے ادا کیں، پھر نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں جائے بھائی کا خیال ہے کہ وہ اس شخص کو قتل کر ڈالے گا جس کو میں نے پناہ دی ہے، وہ فلاں بن ہبیرہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام ہانی جس کو تم نے پناہ دی ہم نے اس کو پناہ دے دی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1494]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 357]، [مسلم 336/82]، [الموطأ 31]، [ترمذي 1579]، [نسائي 225]، [ابن ماجه 465]، [ابن حبان 1188، 2537]، [موارد الظمآن 631]، [الحميدي 333]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1490 سے 1492)
سیدہ اُم ہانی رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی سگی بہن تھیں۔
اس حدیث میں محل شاہد جاشت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آٹھ رکعت نماز پڑھنا ہے جس کے بارے میں بعض علماء نے کہا کہ یہ چاشت کی نماز ہے اور بعض نے کہا فتح مکہ کی نمازِ شکرانہ تھی۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1493
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن عباس الجريري، عن ابي عثمان، عن ابي هريرة، قال:"اوصاني خليلي بثلاث لا ادعهن حتى اموت: الوتر قبل ان انام، وصوم ثلاثة ايام من كل شهر، ومن الضحى ركعتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبَّاسٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:"أَوْصَانِي خَلِيلِي بِثَلَاثٍ لَا أَدَعُهُنَّ حَتَّى أَمُوتَ: الْوِتْرِ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ، وَصَوْمِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَمِنْ الضُّحَى رَكْعَتَيْنِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے میرے جانی دوست (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تین چیزوں کی وصیت کی ہے جنہیں میں موت سے پہلے نہیں چھوڑ سکتا۔ سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی، ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھنے کی، اور دو رکعت چاشت کی نماز پڑھنے کی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1495]»
اس روایت کی یہ سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1178]، [مسلم 721]، [نسائي 1676]، [أبويعلی 6226]، [ابن حبان 2536]، [أحمد 229/2]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1492)
اشراق اور ضحیٰ (چاشت) کے بارے میں سلف و خلف میں اختلاف ہے۔
آیا یہ ایک ہی ہیں یا دونوں نمازیں الگ الگ ہیں، ان روایات کی روشنی میں واضح یہی ہوتا ہے کہ دونوں الگ الگ ہیں۔
اشراق سورج نکلنے کے بعد اور چاشت جب سورج بلندی پر آجائے زوال سے پہلے تک، مذکورہ بالا حدیث میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تھی کہ اس کو کبھی نہ چھوڑیں، عبدالرحمٰن بن ابی یعلیٰ کا یہ کہنا کہ سیدہ اُم ہانی رضی اللہ عنہا کے سوا کسی نے ضحیٰ کی نماز کا ذکر نہیں کیا، تو ثبوت کے لئے ایک راوی کی ہی روایت و شہادت کافی ہے، اور جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کے نوافل پڑھتے نہیں دیکھا تو علماء نے اس کو ان کے عدم علم پر محمول کیا ہے، نیز یہ کہ اشراق کی نماز دو یا چار رکعت اور چاشت دو رکعت سے آٹھ رکعت تک ہیں۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
152. باب مَا جَاءَ في الْكَرَاهِيَةِ فِيهِ:
152. چاشت کی نماز کے مکروہ ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 1494
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا الاوزاعي، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: "ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم سبحة الضحى في سفر ولا حضر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُبْحَةَ الضُّحَى فِي سَفَرٍ وَلَا حَضَرٍ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر و حضر میں کبھی چاشت کی نماز نہیں پڑھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1496]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1128، 1177]، [مسلم 718]، [أبوداؤد 1293]، [صحيح ابن حبان 312، 313]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1495
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا صدقة بن الفضل، حدثنا معاذ بن معاذ، حدثنا شعبة، عن الفضيل بن فضالة، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، ان اباه راى اناسا يصلون صلاة الضحى، فقال:"اما إنهم ليصلون صلاة ما صلاها رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا عامة اصحابه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْفُضَيْلِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، أَنَّ أَبَاهُ رَأَى أُنَاسًا يُصَلُّونَ صَلَاةَ الضُّحَى، فَقَالَ:"أَمَا إِنَّهُمْ لَيُصَلُّونَ صَلَاةً مَا صَلَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا عَامَّةُ أَصْحَابِهِ".
عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ سے مروی ہے کہ ان کے والد (ابوبکرہ) نے کچھ لوگوں کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا تو کہا: یہ لوگ ایسی نماز پڑھتے ہیں جس کو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ہے اور نہ آپ کے عام صحابہ نے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1497]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أحمد 45/5]، [نسائي فى الكبرى 478]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1493 سے 1495)
ان دونوں روایات کو علماء نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عدم علم پر محمول کیا ہے، یعنی کسی چیز کو نہ دیکھنے یا نہ جاننے سے اس کا عدم وجود ثابت نہیں ہوتا، جب کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے صراحۃً معلوم ہوا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت ہے جو ثبوت کے لئے کافی ہے، اور مسلم شریف کتاب صلاة المسافرين باب استحباب صلاة الضحیٰ میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس آتے تو چاشت کی نماز پڑھتے۔
دوسری روایت میں ہے کہ چار رکعت نماز چاشت کی پڑھتے تھے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    24    25    26    27    28    29    30    31    32    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.