سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
152. باب مَا جَاءَ في الْكَرَاهِيَةِ فِيهِ:
چاشت کی نماز کے مکروہ ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 1495
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْفُضَيْلِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، أَنَّ أَبَاهُ رَأَى أُنَاسًا يُصَلُّونَ صَلَاةَ الضُّحَى، فَقَالَ:"أَمَا إِنَّهُمْ لَيُصَلُّونَ صَلَاةً مَا صَلَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا عَامَّةُ أَصْحَابِهِ".
عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ سے مروی ہے کہ ان کے والد (ابوبکرہ) نے کچھ لوگوں کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا تو کہا: یہ لوگ ایسی نماز پڑھتے ہیں جس کو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ہے اور نہ آپ کے عام صحابہ نے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1497]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أحمد 45/5]، [نسائي فى الكبرى 478]
وضاحت: (تشریح احادیث 1493 سے 1495)
ان دونوں روایات کو علماء نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عدم علم پر محمول کیا ہے، یعنی کسی چیز کو نہ دیکھنے یا نہ جاننے سے اس کا عدم وجود ثابت نہیں ہوتا، جب کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے صراحۃً معلوم ہوا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت ہے جو ثبوت کے لئے کافی ہے، اور مسلم شریف کتاب صلاة المسافرين باب استحباب صلاة الضحیٰ میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس آتے تو چاشت کی نماز پڑھتے۔
دوسری روایت میں ہے کہ چار رکعت نماز چاشت کی پڑھتے تھے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح