سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
151. باب صَلاَةِ الضُّحَى:
صلاۃ الضحیٰ کا بیان
حدیث نمبر: 1493
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبَّاسٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:"أَوْصَانِي خَلِيلِي بِثَلَاثٍ لَا أَدَعُهُنَّ حَتَّى أَمُوتَ: الْوِتْرِ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ، وَصَوْمِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَمِنْ الضُّحَى رَكْعَتَيْنِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے میرے جانی دوست (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تین چیزوں کی وصیت کی ہے جنہیں میں موت سے پہلے نہیں چھوڑ سکتا۔ سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی، ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھنے کی، اور دو رکعت چاشت کی نماز پڑھنے کی۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1495]»
اس روایت کی یہ سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1178]، [مسلم 721]، [نسائي 1676]، [أبويعلی 6226]، [ابن حبان 2536]، [أحمد 229/2]
وضاحت: (تشریح حدیث 1492)
اشراق اور ضحیٰ (چاشت) کے بارے میں سلف و خلف میں اختلاف ہے۔
آیا یہ ایک ہی ہیں یا دونوں نمازیں الگ الگ ہیں، ان روایات کی روشنی میں واضح یہی ہوتا ہے کہ دونوں الگ الگ ہیں۔
اشراق سورج نکلنے کے بعد اور چاشت جب سورج بلندی پر آجائے زوال سے پہلے تک، مذکورہ بالا حدیث میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تھی کہ اس کو کبھی نہ چھوڑیں، عبدالرحمٰن بن ابی یعلیٰ کا یہ کہنا کہ سیدہ اُم ہانی رضی اللہ عنہا کے سوا کسی نے ضحیٰ کی نماز کا ذکر نہیں کیا، تو ثبوت کے لئے ایک راوی کی ہی روایت و شہادت کافی ہے، اور جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کے نوافل پڑھتے نہیں دیکھا تو علماء نے اس کو ان کے عدم علم پر محمول کیا ہے، نیز یہ کہ اشراق کی نماز دو یا چار رکعت اور چاشت دو رکعت سے آٹھ رکعت تک ہیں۔
واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح