سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نماز کے مسائل
حدیث نمبر: 1396
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن سعيد بن ابي عروبة، عن قتادة، عن يونس بن جبير، عن حطان بن عبد الله الرقاشي، قال: صلى بنا ابو موسى: إحدى صلاتي العشي، فقال رجل من القوم: اقرت الصلاة بالبر والزكاة، فلما قضى ابو موسى الصلاة، قال: ايكم القائل كلمة كذا وكذا، فارم القوم. فقال: لعلك يا حطان قلتها؟ قال: ما انا قلتها، وقد خفت ان تبكعني بها. فقال رجل من القوم: انا قلتها، وما اردت بها إلا الخير. فقال ابو موسى: او ما تعلمون ما تقولون في صلاتكم؟ رسول الله صلى الله عليه وسلم خطبنا فعلمنا صلاتنا، وبين لنا سنتنا. قال: احسبه قال: "إذا اقيمت الصلاة، فليؤمكم احدكم، فإذا كبر، فكبروا، وإذا قال: غير المغضوب عليهم ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7، فقولوا: آمين، يجبكم الله، فإذا كبر، وركع فكبروا، واركعوا، فإن الإمام يركع قبلكم ويرفع قبلكم"، قال نبي الله صلى الله عليه وسلم:"فتلك بتلك، فإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: اللهم ربنا لك الحمد او قال: ربنا ولك الحمد، فإن الله قال على لسان نبيه: سمع الله لمن حمده، فإذا كبر وسجد، فكبروا واسجدوا، فإن الإمام يسجد قبلكم، ويرفع قبلكم"، قال نبي الله صلى الله عليه وسلم:"فتلك بتلك، فإذا كان عند القعدة فليكن من اول قول احدكم: التحيات الطيبات الصلوات لله، السلام او سلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام او سلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، اشهد ان لا إله إلا الله، واشهد ان محمدا عبده ورسوله".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ، قَالَ: صَلَّى بِنَا أَبُو مُوسَى: إِحْدَى صَلَاتَيْ الْعِشيِّ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ: أُقِرَّتْ الصَّلَاةُ بِالْبِرِّ وَالزَّكَاةِ، فَلَمَّا قَضَى أَبُو مُوسَى الصَّلَاةَ، قَالَ: أَيُّكُمْ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا، فَأَرَمَّ الْقَوْمُ. فَقَالَ: لَعَلَّكَ يَا حِطَّانُ قُلْتَهَا؟ قَالَ: مَا أَنَا قُلْتُهَا، وَقَدْ خِفْتُ أَنْ تَبْكَعَنِي بِهَا. فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ: أَنَا قُلْتُهَا، وَمَا أَرَدْتُ بِهَا إِلَّا الْخَيْرَ. فَقَالَ أَبُو مُوسَى: أَوَ مَا تَعْلَمُونَ مَا تَقُولُونَ فِي صَلَاتِكُمْ؟ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا فَعَلَّمَنَا صَلَاتَنَا، وَبَيَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا. قَالَ: أَحْسَبُهُ قَالَ: "إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَلْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، فَإِذَا كَبَّرَ، فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَالَ: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، فَقُولُوا: آمِينَ، يُجِبْكُمْ اللَّهُ، فَإِذَا كَبَّرَ، وَرَكَعَ فَكَبِّرُوا، وَارْكَعُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ"، قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"فَتِلْكَ بِتِلْكَ، فَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ أَوْ قَالَ: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، فَإِنَّ اللَّهَ قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَإِذَا كَبَّرَ وَسَجَدَ، فَكَبِّرُوا وَاسْجُدُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ، وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ"، قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"فَتِلْكَ بِتِلْكَ، فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ مِنْ أَوَّلِ قَوْلِ أَحَدِكُمْ: التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ أَوْ سَلَامٌ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ أَوْ سَلَامٌ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ".
حطان بن عبداللہ رقاشی نے کہا: سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے ہم کو دو عشاء میں سے ایک نماز (یعنی مغرب یا عشاء) پڑھائی تو جماعت میں سے ایک آدمی نے کہا: نماز نیکی اور زکاة کے ساتھ فرض کی گئی ہے، جب سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہوئے تو کہا: یہ بات کس نے کہی ہے؟ سب لوگ خاموش رہے تو سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے حطان! یہ بات شاید تم نے ہی کہی ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں، میں نے یہ (نماز نیکی کے ساتھ فرض کی گئی ہے) نہیں کہا، اور میں کیسے کہتا مجھے تو خوف لاحق تھا کہ آپ (میری سرزنش کریں گے) مجھ سے ناراض ہو جائیں گے، ایک آدمی نے کہا: یہ کلمہ میں نے کہا تھا اور میرا ارادہ خیر کا ہی تھا یعنی آدمی نماز پڑھے تو نیکی بھی کرے زکاۃ بھی دے (واللہ اعلم)، پھر سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہیں پتہ نہیں ہے تم اپنی نماز میں کیا کہہ جاتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور ہم کو نماز سکھلائی اور اپنی سنت بیان فرمائی۔ راوی نے کہا: میرا خیال ہے انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز کی اقامت ہو تو تم میں سے کوئی ایک امامت کرائے، پس جب وہ امام «الله اكبر» کہے تم بھی «الله اكبر» کہو، اور جب وہ «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو تم آمین کہو الله قبول کرے گا، پھر جب وہ «الله اكبر» کہے اور رکوع کرے تم بھی «الله اكبر» کہو اور رکوع میں چلے جاؤ، دھیان رہے کہ امام تم سے پہلے رکوع میں جائے گا اورتم امام کی اتباع میں بعد میں رکوع میں جاؤ گے اور رکوع سے سر اٹھاؤ گے، امام تم سے پہلے (رکوع سے) سر اٹھائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا ایسا کرنا امام کے رکوع وغیرہ ہی کے مطابق ہے، پس جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «اللهم ربنا ولك الحمد» کہو یا یہ کہا کہ «ربنا لك الحمد» کہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان میں کہا ہے «سمع الله لمن حمده» (یعنی اللہ نے اس کی دعا سن لی یا قبول کر لی جس نے اس کی تعریف کی)، پھر جب امام «الله اكبر» کہہ کر سجدے میں جائے تو تم بھی (اس کے بعد) «الله اكبر» کہو اور سجدے میں چلے جاؤ، امام تم سے پہلے سجدے میں جائے گا اور تم سے پہلے سجدے سے سر اٹھائے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام ایسا کرے تو تم بھی ویسا ہی کرو، پھر جب امام (تشہد) قعدہ میں بیٹھے تو تم سب سے پہلے «اَلتَّحِيَّاتُ اَلطَّيِّبَاتُ اَلصَّلَوَاتُ لِلّٰھِ السَّلَامُ»، یا: «سَلَامٌ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ»، یا: «سَلَامٌ عَلَيْنَا وَعَلَىٰ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِيْنَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ» کہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف سعيد بن عامر متأخر السماع من ابن أبي عروبة ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1398]»
اس روایت کی سند میں کلام ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 404]، [نسائي 829، 1279]، [ابن ماجه 901]، [ابن حبان 2167]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1393 سے 1396)
ان تینوں احادیثِ مبارکہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا صحیح طریقہ معلوم ہوا۔
پہلی حدیث اس باب میں کافی و وافی ہے، یہاں چند امور کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اتباعِ سنّت کی توفیق دے اور صلاة نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے کی اسی طرح توفیق عطا فرمائے۔
آمین۔
1- پہلی حدیث میں جو دس صحابہ کا ذکر ہے ان میں سے سیدنا سہل بن سعد، سیدنا محمد بن مسلمہ، سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہم ہیں جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ میں ہے۔
2- ان احادیث سے تاکیداً یہ معلوم ہوا کہ رفع یدین رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّتِ موکدہ ہے، اور یہ کہنا کہ لوگ بغلوں میں بت چھپا لیتے تھے اس لئے شروع میں رفع یدین کرنے کو کہا گیا یہ سراسر غلط بیانی اور من گھڑت بات ہے کہ کسی صحابی سے ایسی توقع کی جاسکتی ہے، صحابی کیا منافق بھی ایسا نہیں کر سکتے اور نہ تاریخ نے ایسا کوئی واقعہ نقل کیا ہے۔
رفع الیدین احادیثِ صحیحہ کے مطابق تکبیرِ تحریمہ میں، رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھانے پر، نیز تیسری رکعت پر کھڑے ہونے پر کی جانی چاہیے۔
3- ایک اور اہم مسئلہ اس حدیث میں اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، وہ ہے نماز میں اطمینان و سکون سے تمام ارکان کو ادا کرنا۔
اطمینان نماز کا رکن ہے، بغیر اطمینان کے نماز درست نہیں، اسی لئے ان احادیث میں بتایا گیا کہ رکوع، قومہ، سجدہ اور قعدہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنا وقفہ ٹھہرے رہتے کہ ہر جوڑ اور ہڈی اپنی جگہ پر آ جائے۔
4- رکوع اور سجدے کی کیفیت کو بھی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ رکوع اور سجدے میں ہاتھ (بازو) پسلیوں اور پہلو سے دور رہیں۔
5- پہلی حدیث میں تورک کا مسئلہ بھی وضاحت کے ساتھ مذکور ہے۔
تفصیل حدیث کے ترجمہ میں ذکر کر دی گئی ہے۔
6- ان احادیث میں تشہد اوّل اور ثانی دونوں میں انگلی کے اشارے کا بھی واضح ثبوت ہے۔
7- آمین کہنے کا ثبوت اور اس کی فضیلت بھی ان احادیث سے معلوم ہوئی کہ جو آمین کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کر لیتا ہے۔
8- ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی بھی «الله اكبر» کہیں گے اور امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو سب کا «ربنا لك الحمد» یا «ولك الحمد» کہنا بھی لازم ہے، دیگر اذکار بھی اس سلسلہ میں صحیح اسانید سے ثابت ہیں وہ بھی پڑھنے چاہئے جن کا ذکر حدیث نمبر (1357) میں گذر چکا ہے۔
9- اس سے التحیات کا صیغہ بھی معلوم ہوا۔
10- اور ایک اہم چیز امام کی متابعت ہے، کسی بھی رکن میں امام سے پہل نہ کی جائے ورنہ نماز باطل ہو جائے گی۔
«إِذَا كَبِّرْ فَكَبِّرُوْا» اور دیگر جملوں میں ظرف تعقیب کے لئے ہے، یعنی امام کر چکے تب وہ رکن ادا کیا جائے، جب تکبیر کہہ چکے تو تکبیر کہی جائے، رکوع میں جا چکے تو رکوع میں جائیں، رکوع سے کھڑا ہو جائے تب مقتدی کھڑے ہوں، جب سجدے میں امام چلا جائے اس کے بعد مقتدی سجدے میں جائیں، اور اسی طرح جب سجدے سے سر اٹھائے تب سجده پورا کریں، اور جب دونوں طرف سلام پھیر چکے تب سلام پھیریں، یہی صحیح متابعت ہے اور اسی کے لئے کہا گیا «جعل الإمام ليؤتم به» کہ امام اتباع کے لئے بنایا گیا ہے۔
واللہ علم

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف سعيد بن عامر متأخر السماع من ابن أبي عروبة ولكن الحديث صحيح
93. باب الْعَمَلِ في الصَّلاَةِ:
93. نماز میں نماز کے افعال کے سوا عمل کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1397
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم هو النبيل، عن ابن عجلان، عن المقبري، عن عمرو بن سليم، عن ابي قتادة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "خرج يصلي وقد حمل على عنقه او عاتقه امامة بنت زينب، فإذا ركع، وضعها، وإذا قام، حملها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ هُوَ النَّبِيلُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "خَرَجَ يُصَلِّي وَقَدْ حَمَلَ عَلَى عُنُقِهِ أَوْ عَاتِقِهِ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ، فَإِذَا رَكَعَ، وَضَعَهَا، وَإِذَا قَامَ، حَمَلَهَا".
سیدنا ابوقتاده رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے باہر تشریف لائے اور اپنی گردن یا کندھے پر امامہ بنت زینب (اپنی نواسی) کو اٹھائے ہوئے تھے، جب آپ رکوع کرتے تو نیچے اتار دیتے، جب کھڑے ہوتے تو پھر انہیں اٹھا لیتے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1399]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 516]، [مسلم 543]، [أبوداؤد 917]، [نسائي 710]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن ولكن الحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 1398
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن عامر بن عبد الله بن الزبير، عن عمرو بن سليم الزرقي، عن ابي قتادة الانصاري، قال: "حمل رسول الله صلى الله عليه وسلم امامة بنت زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في الصلاة، فإذا سجد، وضعها، وإذا قام حملها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: "حَمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ، فَإِذَا سَجَدَ، وَضَعَهَا، وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا".
سیدنا ابوقتاده انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امامہ بنت زینب کو نماز میں اٹھا لیا، جب آپ سجدہ کرتے تو اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اس کو اٹھا لیتے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1400]»
اس حدیث کے حوالے کے لئے مذکورہ بالا مصادر ملاحظہ فرمائیں۔ نیز دیکھئے: [ابن حبان 109، 110]، [الحميدي 426]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1396 سے 1398)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا تھوڑا بہت عمل نماز کو خراب نہیں کرتا، اس طرح اگر کوئی نمازی بچے کو گود میں اٹھا لے اور رکوع سجدے کے وقت اتار دے تو اس سے نماز میں کوئی خلل نہیں آئے گا۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سید البشر اتقی للہ واعلم باللہ ہوتے ہوئے ایسا کر کے بچے والی ماؤں کے لئے آسانی فرما دی۔
اللہ تعالیٰ ان کی ذاتِ مقدس پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے۔
آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
94. باب كَيْفَ يَرُدُّ السَّلاَمَ في الصَّلاَةِ:
94. نماز میں سلام کا جواب کس طرح دیا جائے
حدیث نمبر: 1399
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد هو الطيالسي، حدثنا ليث بن سعد، اخبرني بكير هو ابن الاشج، عن نابل صاحب العباء، عن ابن عمر، عن صهيب، قال: "مررت برسول الله صلى الله عليه وسلم فسلمت عليه وهو يصلي، فرد إلي إشارة". قال ليث: احسبه قال: باصبعه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هُوَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، أَخْبَرَنِي بُكَيْرٌ هُوَ ابْنُ الْأَشَجِّ، عَنْ نَابِلٍ صَاحِبِ الْعَبَاءِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ صُهَيْبٍ، قَالَ: "مَرَرْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي، فَرَدَّ إِلَيَّ إِشَارَةً". قَالَ لَيْثٌ: أَحْسَبُهُ قَالَ: بِأُصْبُعِهِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا کہ وہ (صہیب) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرے تو سلام کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے اشارے سے جواب دیا، راوی حدیث لیث نے کہا: میرے خیال سے انہوں نے کہا کہ انگلی کے اشارے سے آپ نے سلام کا جواب دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1401]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 925]، [ترمذي 367]، [نسائي 1185]، [ابن حبان 2259]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1400
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا سفيان بن عيينة، عن زيد بن اسلم، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل مسجد بني عمرو بن عوف، فدخل الناس يسلمون عليه وهو في الصلاة، قال: فسالت صهيبا: كيف كان يرد عليهم؟ قال: "هكذا، واشار بيده".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَسْجِدَ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَدَخَلَ النَّاسُ يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: فَسَأَلْتُ صُهَيْبًا: كَيْفَ كَانَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ؟ قَالَ: "هَكَذَا، وَأَشَارَ بِيَدِهِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد بنی عوف بن عمرو میں تشریف لائے (جو قباء میں ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے لگے اور لوگ بھی مسجد میں بھر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہتے تھے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے (سیدنا) صہیب (رضی اللہ عنہ) سے پوچھا: (نماز کی حالت میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلام کا جواب کس طرح دیتے رہے؟ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا: اس طرح جواب دیتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1402]»
اس حدیث کی سند بھی صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 927]، [ترمذي 368]، [نسائي 1186]، [ابن ماجه 1017]، [أبويعلی 5638]، [ابن حبان 2258]، [موارد الظمآن 532]، [الحميدي 148]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1398 سے 1400)
ان احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہوا کہ نماز کی حالت میں اگر کسی سے سلام کیا جائے تو اشارے سے جواب دے سکتے ہیں، کیونکہ سلام کرنا اور اس کا جواب دینا قرآن و حدیث کی روشنی میں دونوں ہی واجباتِ دینیہ میں سے ہیں، بعض لوگ کھانا کھاتے وقت سلام کا جواب نہیں دیتے اور نہ سلام کرنا پسند کرتے ہیں، کیا کھانا نماز پڑھنے سے زیادہ اچھا عمل ہے؟ غور کرنا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
95. باب التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ:
95. نماز میں بھول چوک ہونے پر مردوں کے تسبیح کہنے اور عورتوں کی تصفیق کا بیان
حدیث نمبر: 1401
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ، وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردوں کے لئے تسبیح اور عورتوں کے لئے تصفيق ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1403]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1203]، [مسلم 422]، [أبوداؤد 939]، [نسائي 1206]، [ابن ماجه 1034]، [أبويعلی 5955]، [ابن حبان 2262]، [الحميدي 978]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1402
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن حسان، حدثنا حماد بن زيد، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إذا نابكم شيء في صلاتكم، فليسبح الرجال، ولتصفح النساء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي صَلَاتِكُمْ، فَلْيُسَبِّحْ الرِّجَالُ، وَلْتُصَفِّحْ النِّسَاءُ".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز میں تم کو کوئی واقعہ پیش آ جائے (بھول چوک ہو جائے) تو مرد «سبحان الله» کہیں اور عورتیں ہاتھ پر ہاتھ ماریں (تالی کی طرح ہاتھ پر ہاتھ مار کر آ گاہ کریں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1404]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 684]، [مسلم 421]، [أبوداؤد 940]، [نسائي 783]، [ابن ماجه 1035]، [أبويعلی 7512]، [ابن حبان 2660]، [الحميدي 596]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1403
Save to word اعراب
اس سند سے بھی سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی (مذکورہ بالا روایت) کے مثل حدیث روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1405]»
اوپر اس کے حوالے گذر چکے ہیں، اور یہ سند بھی صحیح ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1400 سے 1403)
نماز میں امام سے کوئی بھول چوک ہو جائے تو مردوں کو سبحان اللہ کہنا چاہیے اور عورتیں ہاتھ کی پشت پر ہاتھ ماریں تاکہ امام متنبہ ہو جائے، بعض نسخ میں «التصفيح للنساء» بھی آیا ہے جس کے معنی ہیں ہاتھ پر ہاتھ مارنا، یا ہتھیلی کو ہتھیلی پر مارنا۔
امام قسطلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کھیل کے طور پر تالی بجانے سے نماز فاسد ہو جائے گی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
96. باب صَلاَةِ التَّطَوُّعِ في أَيِّ مَوْضِعٍ أَفْضَلُ:
96. نفلی نماز کہاں پڑھنا افضل ہے
حدیث نمبر: 1404
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا مكي بن إبراهيم، حدثنا عبد الله بن سعيد بن ابي هند، عن ابي النضر، عن بسر بن سعيد , عن زيد بن ثابت، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "عليكم بالصلاة في بيوتكم، فإن خير صلاة المرء في بيته إلا الجماعة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ , عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "عَلَيْكُمْ بِالصَّلَاةِ فِي بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ خَيْرَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الْجَمَاعَةَ".
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھروں میں نماز پڑھنے کو لازم پکڑو کیونکہ آدمی کی بہترین نماز سوائے (نماز) باجماعت کے گھر میں نماز پڑھنا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1406]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے، اور اس معنی کی روایت صحیحین میں بھی موجود ہے۔ دیکھئے: [بخاري 731]، [مسلم 781]، [أبوداؤد 1044]، [ترمذي 450]، [ابن حبان 2491]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1403)
مردوں کے لئے فرض نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل ہے اور نفلی نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے، اور عورتوں کی بہترین نماز گھر میں ہے۔
ایک روایتِ صحیحہ میں ہے کہ اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ یعنی قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جاتی ہے، اور جس گھر میں عورت مرد نماز نہ پڑھیں وہ قبرستان کی طرح ہے۔
لیکن عورت نماز کے لئے مسجد جانا چاہے تو جا سکتی ہے اور اس کو باجماعت نماز پڑھنے کا ثواب ان شاء الله ضرور ملے گا۔
جیسا کہ «باب التغليس فى الفجر» اور «باب النهي عن منع النساء من المساجد» حدیث رقم (1312) میں گذر چکا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
97. باب إِعَادَةِ الصَّلَوَاتِ في الْجَمَاعَةِ بَعْدَ مَا يُصَلِّي في بَيْتِهِ:
97. اگر گھر میں نماز پڑھ لی ہے تو جماعت کے ساتھ نماز دوبارہ پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1405
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، عن يعلى بن عطاء، قال: سمعت جابر بن يزيد بن الاسود السوائي يحدث، عن ابيه، انه صلى مع النبي صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح، قال: فإذا رجلان حين صلى النبي صلى الله عليه وسلم قاعدان في ناحية لم يصليا، قال: فدعاهما، فجيء بهما ترعد فرائصهما. قال:"ما منعكما ان تصليا؟"قالا: صلينا في رحالنا، قال:"فلا تفعلا، إذا صليتما في رحالكما ثم ادركتما الإمام، فصليا فإنها لكما نافلة". قال: فقام الناس ياخذون بيده يمسحون بها وجوههم، قال: فاخذت بيده فمسحت بها وجهي، فإذا هي ابرد من الثلج، واطيب ريحا من المسك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ السُّوَائِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ، قَالَ: فَإِذَا رَجُلَانِ حِينَ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدَانِ فِي نَاحِيَةٍ لَمْ يُصَلِّيَا، قَالَ: فَدَعَاهُمَا، فَجِيءَ بِهِمَا تُرْعَدُ فَرَائِصُهُمَا. قَالَ:"مَا مَنَعَكُمَا أَنْ تُصَلِّيَا؟"قَالَا: صَلَّيْنَا فِي رِحَالِنَا، قَالَ:"فَلَا تَفْعَلَا، إِذَا صَلَّيْتُمَا فِي رِحَالِكُمَا ثُمَّ أَدْرَكْتُمَا الْإِمَامَ، فَصَلِّيَا فَإِنَّهَا لَكُمَا نَافِلَةٌ". قَالَ: فَقَامَ النَّاسُ يَأْخُذُونَ بِيَدِهِ يَمْسَحُونَ بِهَا وُجُوهَهُمْ، قَالَ: فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ فَمَسَحْتُ بِهَا وَجْهِي، فَإِذَا هِيَ أَبْرَدُ مِنْ الثَّلْجِ، وَأَطْيَبُ رِيحًا مِنْ الْمِسْكِ.
جابر بن یزید بن اسود اپنے والد (سیدنا یزید رضی اللہ عنہ) سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے دوران دو آدمی ایک کونے میں بیٹھے رہے، نماز نہیں پڑھی۔ سیدنا یزید رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا، ان کو لایا گیا اس حال میں کہ وہ کانپ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کو نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟ دونوں نے عرض کیا: ہم نے اپنے ٹھکانوں پر نماز پڑھ لی تھی، فرمایا: آئندہ ایسے نہ بیٹھنا، جب تم گھر میں نماز پڑھ لو، پھر امام کو نماز پڑھتے پاؤ تو امام کے ساتھ نماز پڑھو، اور وہ (گھر کی نماز) تمہارے لئے نفلی نماز ہو گی، سیدنا یزید رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے بعد لوگ اٹھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو پکڑتے اور پھر اپنے منہ پر پھیر لیتے۔ سیدنا یزید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کو تھاما اور اپنے چہرے پر پھیر لیا جو کہ برف سے زیادہ سرد اور مشک کی خوشبو سے زیادہ اچھا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1407]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 575]، [ترمذي 219]، [نسائي 857]، [ابن حبان 1564]، [الموارد 436]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1404)
اس حدیث سے نماز باجماعت کی اہمیت معلوم ہوئی، نیز یہ کہ اگر وہ نماز پڑھ لی ہو اور جماعت کھڑی مل جائے تو جماعت نہ چھوڑے بلکہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لے، ایسی صورت میں پہلے والی نماز جو گھر، مکان، دوکان یا خیمہ میں پڑھی ہے وہ نفلی ہوگی اور جماعت کے ساتھ پڑھی گئی نماز فریضہ شمار ہو گی جیسا کہ ابوداؤد میں صراحت کے ساتھ موجود ہے، لیکن ابوداؤد کی روایت ضعیف ہے، اسی لئے امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے: پہلی جو نماز اکیلے پڑھی وہ فرض شمار ہوگی اور دوسری جو جماعت کے ساتھ پڑھی وہ نافلہ ہوگی۔
اس روایت کے آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک سے تبرک حاصل کرنے کا ذکر ہے جو راوی کا اپنا بیان ہے اور اس کا ذکر مذکورہ بالا مصادر میں کہیں نہیں ہے۔
دوسرے یہ امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا، عصرِ حاضر میں امام کا ہاتھ چومنا یا سر پر رکھنا یا منہ پر پھیرنا درست نہیں ہے۔
سماحۃ الشیخ مفتی عام المملكۃ العربيۃ السعوديۃ بھی اس سے منع کرتے تھے، ان کا کہنا تھا ماں باپ کا ہاتھ اور پیشانی کا بوسہ دے سکتے ہیں۔
یہاں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے بھی یہی حکم صادر فرمایا ہے، ان کا بھی کوئی شخص ہاتھ چومنا چاہے تو ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    15    16    17    18    19    20    21    22    23    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.