Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
94. باب كَيْفَ يَرُدُّ السَّلاَمَ في الصَّلاَةِ:
نماز میں سلام کا جواب کس طرح دیا جائے
حدیث نمبر: 1400
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَسْجِدَ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَدَخَلَ النَّاسُ يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: فَسَأَلْتُ صُهَيْبًا: كَيْفَ كَانَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ؟ قَالَ: "هَكَذَا، وَأَشَارَ بِيَدِهِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد بنی عوف بن عمرو میں تشریف لائے (جو قباء میں ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے لگے اور لوگ بھی مسجد میں بھر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہتے تھے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے (سیدنا) صہیب (رضی اللہ عنہ) سے پوچھا: (نماز کی حالت میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلام کا جواب کس طرح دیتے رہے؟ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا: اس طرح جواب دیتے تھے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1402]»
اس حدیث کی سند بھی صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 927]، [ترمذي 368]، [نسائي 1186]، [ابن ماجه 1017]، [أبويعلی 5638]، [ابن حبان 2258]، [موارد الظمآن 532]، [الحميدي 148]

وضاحت: (تشریح احادیث 1398 سے 1400)
ان احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہوا کہ نماز کی حالت میں اگر کسی سے سلام کیا جائے تو اشارے سے جواب دے سکتے ہیں، کیونکہ سلام کرنا اور اس کا جواب دینا قرآن و حدیث کی روشنی میں دونوں ہی واجباتِ دینیہ میں سے ہیں، بعض لوگ کھانا کھاتے وقت سلام کا جواب نہیں دیتے اور نہ سلام کرنا پسند کرتے ہیں، کیا کھانا نماز پڑھنے سے زیادہ اچھا عمل ہے؟ غور کرنا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح