سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
97. باب إِعَادَةِ الصَّلَوَاتِ في الْجَمَاعَةِ بَعْدَ مَا يُصَلِّي في بَيْتِهِ:
اگر گھر میں نماز پڑھ لی ہے تو جماعت کے ساتھ نماز دوبارہ پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1405
حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ السُّوَائِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ، قَالَ: فَإِذَا رَجُلَانِ حِينَ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدَانِ فِي نَاحِيَةٍ لَمْ يُصَلِّيَا، قَالَ: فَدَعَاهُمَا، فَجِيءَ بِهِمَا تُرْعَدُ فَرَائِصُهُمَا. قَالَ:"مَا مَنَعَكُمَا أَنْ تُصَلِّيَا؟"قَالَا: صَلَّيْنَا فِي رِحَالِنَا، قَالَ:"فَلَا تَفْعَلَا، إِذَا صَلَّيْتُمَا فِي رِحَالِكُمَا ثُمَّ أَدْرَكْتُمَا الْإِمَامَ، فَصَلِّيَا فَإِنَّهَا لَكُمَا نَافِلَةٌ". قَالَ: فَقَامَ النَّاسُ يَأْخُذُونَ بِيَدِهِ يَمْسَحُونَ بِهَا وُجُوهَهُمْ، قَالَ: فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ فَمَسَحْتُ بِهَا وَجْهِي، فَإِذَا هِيَ أَبْرَدُ مِنْ الثَّلْجِ، وَأَطْيَبُ رِيحًا مِنْ الْمِسْكِ.
جابر بن یزید بن اسود اپنے والد (سیدنا یزید رضی اللہ عنہ) سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے دوران دو آدمی ایک کونے میں بیٹھے رہے، نماز نہیں پڑھی۔ سیدنا یزید رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا، ان کو لایا گیا اس حال میں کہ وہ کانپ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کو نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟“ دونوں نے عرض کیا: ہم نے اپنے ٹھکانوں پر نماز پڑھ لی تھی، فرمایا: ”آئندہ ایسے نہ بیٹھنا، جب تم گھر میں نماز پڑھ لو، پھر امام کو نماز پڑھتے پاؤ تو امام کے ساتھ نماز پڑھو، اور وہ (گھر کی نماز) تمہارے لئے نفلی نماز ہو گی“، سیدنا یزید رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے بعد لوگ اٹھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو پکڑتے اور پھر اپنے منہ پر پھیر لیتے۔ سیدنا یزید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کو تھاما اور اپنے چہرے پر پھیر لیا جو کہ برف سے زیادہ سرد اور مشک کی خوشبو سے زیادہ اچھا تھا۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1407]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 575]، [ترمذي 219]، [نسائي 857]، [ابن حبان 1564]، [الموارد 436]
وضاحت: (تشریح حدیث 1404)
اس حدیث سے نماز باجماعت کی اہمیت معلوم ہوئی، نیز یہ کہ اگر وہ نماز پڑھ لی ہو اور جماعت کھڑی مل جائے تو جماعت نہ چھوڑے بلکہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لے، ایسی صورت میں پہلے والی نماز جو گھر، مکان، دوکان یا خیمہ میں پڑھی ہے وہ نفلی ہوگی اور جماعت کے ساتھ پڑھی گئی نماز فریضہ شمار ہو گی جیسا کہ ابوداؤد میں صراحت کے ساتھ موجود ہے، لیکن ابوداؤد کی روایت ضعیف ہے، اسی لئے امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے: پہلی جو نماز اکیلے پڑھی وہ فرض شمار ہوگی اور دوسری جو جماعت کے ساتھ پڑھی وہ نافلہ ہوگی۔
اس روایت کے آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک سے تبرک حاصل کرنے کا ذکر ہے جو راوی کا اپنا بیان ہے اور اس کا ذکر مذکورہ بالا مصادر میں کہیں نہیں ہے۔
دوسرے یہ امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا، عصرِ حاضر میں امام کا ہاتھ چومنا یا سر پر رکھنا یا منہ پر پھیرنا درست نہیں ہے۔
سماحۃ الشیخ مفتی عام المملكۃ العربيۃ السعوديۃ بھی اس سے منع کرتے تھے، ان کا کہنا تھا ماں باپ کا ہاتھ اور پیشانی کا بوسہ دے سکتے ہیں۔
یہاں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے بھی یہی حکم صادر فرمایا ہے، ان کا بھی کوئی شخص ہاتھ چومنا چاہے تو ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح