سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نماز کے مسائل
حدیث نمبر: 1376
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن سلمة، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان "إذا قعد في آخر الصلاة، وضع يده اليسرى على ركبته اليسرى، ووضع يده اليمنى على ركبته اليمنى، ونصب إصبعه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "إِذَا قَعَدَ فِي آخِرِ الصَّلَاةِ، وَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُمْنَى، وَنَصَبَ إِصْبَعَهُ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے آخر میں (تشہد کے لئے) بیٹھتے، بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر اور دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر رکھتے اور انگلی کھڑی رکھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1378]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 580]، [أبوداؤد 980]، [ترمذي 3220]، [نسائي 1284]، [أبويعلی 5767]، [ابن حبان 1942]، [الحميدي 662]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1374 سے 1376)
یعنی تشہد میں کلمے کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے، اس کی کیفیت مسلم شریف میں اس طرح ہے کہ انگوٹھا بیچ کی انگلی پر رکھتے اور سبابہ سے اشارہ کرتے تھے، اور یہ اشارہ پورے تشہد میں کرتے رہتے تھے، «إِلَّا اللّٰه» کے وقت اشارہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔
سماحۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ سے سنا تھا کہ جب اللہ کا نام لے انگلی کو حرکت دے، انگلیاں گھٹنے پر پھیلائے رکھنا اور پھر «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰه» کے وقت عقد بنا کر انگلی سے اشارے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے، اور اشارہ کرتے وقت نگاه انگلی پر رہنی چاہئے جیسا کہ سنن نسائی میں ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
84. باب في التَّشَهُّدِ:
84. تشہد کا بیان
حدیث نمبر: 1377
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى، حدثنا الاعمش، عن شقيق، عن عبد الله، قال: كنا إذا صلينا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم قلنا: السلام على الله قبل عباده، السلام على جبريل، السلام على ميكائيل، السلام على إسرافيل، السلام على فلان وفلان. قال: فاقبل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:"إن الله تعالى هو السلام، فإذا جلستم في الصلاة، فقولوا: التحيات لله، والصلوات والطيبات، السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، فإنكم إذا قلتموها اصابت كل عبد صالح في السماء والارض، اشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله، ثم ليتخير ما شاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ قَبْلَ عِبَادِهِ، السَّلَامُ عَلَى جِبْرِيلَ، السَّلَامُ عَلَى مِيكَائِيلَ، السَّلَامُ عَلَى إِسْرَافِيلَ، السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ وَفُلَانٍ. قَالَ: فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:"إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى هُوَ السَّلَامُ، فَإِذَا جَلَسْتُمْ فِي الصَّلَاةِ، فَقُولُوا: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، فَإِنَّكُمْ إِذَا قُلْتُمُوهَا أَصَابَتْ كُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ مَا شَاءَ".
سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو کہتے: الله تعالیٰ پر سلام ہو اس کے بندوں سے پہلے، سلام ہو جبریل و میکائیل پر، سلام ہو اسرافیل پر، سلام ہو فلاں اور فلاں پر، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: الله تعالیٰ تو خود سلام ہے (اس پر کیا سلام کرتے ہو)، جب تم نماز میں (تشہد کے لئے) بیٹھ جاؤ تو کہو: «التحيات لله ........... إلى وعلی عباد الله الصالحين» یعنی: تمام قولی و بدنی عبادتیں (یا تمام ادب و تعظيم کے کلمات) تمام عبادات (نماز یں وغیرہ) اور تمام بہترین تعریفیں و صدقات اللہ ہی کے لئے ہیں، آپ پر سلام ہو اے نبی اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں، ہم پر سلام اور اللہ کے تمام صالح بندوں پر سلام۔ جب تم یہ کہو گے تو تمہارا سلام آسمان و زمین میں جہاں کہیں کوئی نیک بندہ ہے اس کو پہنچ جائے گا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، پھر اس کے بعد جو چاہے دعا کرے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1379]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 831، 835]، [مسلم 402]، [أبوداؤد 968]، [نسائي 1168]، [ابن ماجه 899]، [أبويعلی 5082]، [ابن حبان 1948]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1378
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا زهير، عن الحسن بن حر، حدثني القاسم بن مخيمرة، قال: اخذ علقمة بيدي فحدثني، ان عبد الله اخذ بيده، وان رسول الله صلى الله عليه وسلم اخذ بيد عبد الله، فعلمه التشهد في الصلاة: "التحيات لله، والصلوات، والطيبات، السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين قال زهير: اراه قال: اشهد ان لا إله إلا الله، واشهد ان محمدا عبده ورسوله". ايضا شك في هاتين الكلمتين: إذا فعلت هذا او قضيت، فقد قضيت صلاتك، إن شئت ان تقوم، فقم، وإن شئت ان تقعد، فاقعد.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ حُرٍّ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُخَيْمِرَةَ، قَالَ: أَخَذَ عَلْقَمَةُ بِيَدِي فَحَدَّثَنِي، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ أَخَذَ بِيَدِهِ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ عَبْدِ اللَّهِ، فَعَلَّمَهُ التَّشَهُّدَ فِي الصَّلَاةِ: "التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ، وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ قَالَ زُهَيْرٌ: أُرَاهُ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ". أَيْضًا شَكَّ فِي هَاتَيْنِ الْكَلِمَتَيْنِ: إِذَا فَعَلْتَ هَذَا أَوْ قَضَيْتَ، فَقَدْ قَضَيْتَ صَلَاتَكَ، إِنْ شِئْتَ أَنْ تَقُومَ، فَقُمْ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَقْعُدَ، فَاقْعُدْ.
قاسم بن مخیمرہ نے بیان کیا کہ علقمہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھ سے حدیث بیان کی کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ تھاما اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ کا ہاتھ تھاما اور انہیں نماز میں تشہد کرنا سکھایا اور «(اَلتَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ ........... إِلَى الصَّالِحِيْن)» زہیر نے کہا: میرا خیال ہے «‏‏‏‏أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ» ‏‏‏‏ تک یاد کرائی، شہادتین میں انہیں شک ہو گیا۔ پھر فرمایا: جب تم نے ایسا کر لیا یا کہہ لیا تو اپنی نماز پوری کر لی، اگر اٹھنا چاہو تو اٹھ جاؤ اور بیٹھنا چاہو تو بیٹھے رہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1380]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [أبوداؤد 970]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1376 سے 1378)
اس حدیث سے تشہد میں «التَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ» پڑھنا ثابت ہوا جو کہ «التَّحِيَّاتُ» سے «مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ» تک ہے اور «ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ مَا شَاءَ» کا مطلب ہے پھر اس کے بعد جو بھی دعا چاہے کرے، چاہے ماثور ہو یا غیر ماثور، اور ماثور اولیٰ ہے جن کا بیان آگے آرہا ہے۔
اور «السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيِّ» اس وقت تک کے لئے تھا جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم حیات تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام نے «السَّلَامُ عَلَي النَّبِيِّ» کہنا شروع کر دیا تھا جیسا کہ سیدنا ابن مسعود، سیدہ عائشہ، سیدنا ابن زبیر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے۔
دیکھئے: [بخاري 6265]، [فتح الباري 314/2] لہٰذا «السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلُ اللّٰه» کہنے کی اس سے نفی ہوتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
85. باب الصَّلاَةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
85. نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کا بیان
حدیث نمبر: 1379
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، قال: الحكم اخبرني قال: سمعت ابن ابي ليلى يقول: لقيني كعب بن عجرة، فقال: الا اهدي لك هدية؟ إن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج علينا، فقلنا: قد علمنا كيف السلام عليك، فكيف نصلي عليك؟ قال:"قولوا: اللهم صل على محمد، وعلى آل محمد، كما صليت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد، وبارك على محمد، وعلى آل محمد، كما باركت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: الْحَكَمُ أَخْبَرَنِي قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى يَقُولُ: لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ، فَقَالَ: أَلَا أُهْدِي لَكَ هَدِيَّةً؟ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَيْنَا، فَقُلْنَا: قَدْ عَلِمْنَا كَيْفَ السَّلَامَ عَلَيْكَ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ قَالَ:"قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ".
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں ایک ہدیہ نہ دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نے کہا: ہم نے آپ پر سلام کا طریقہ تو جان لیا، آپ پر درود کس طرح پڑھیں؟ فرمایا: ایسے کہو «(اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ ...... إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ)» اے اللہ! محمد پر اور آلِ محمد پر اس طرح رحم و کرم فرما جس طرح تو نے ابراہیم پر رحم و کرم فرمایا، بے شک تو قابلِ تعریف اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! تو محمد اور آلِ محمد کو برکتیں عطا فرما جس طرح تو نے ابراہیم کو برکتیں عطا فرمائیں، تو حمد و ستائش کے لائق اور بزرگی والا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1381]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6357]، [مسلم 406]، [أبوداؤد 976]، [ترمذي 483]، [نسائي 1286]، [ابن ماجه 904]، [ابن حبان 912]، [الحميدي 728]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1380
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا مالك، عن نعيم المجمر مولى عمر بن الخطاب، ان محمد بن عبد الله بن زيد الانصاري الذي كان اري النداء بالصلاة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم اخبره، ان ابا مسعود الانصاري، قال: اتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلس معنا في مجلس سعد بن عبادة، فقال له بشير بن سعد وهو ابو النعمان بن بشير: امرنا الله ان نصلي عليك يا رسول الله، فكيف نصلي عليك؟ قال: فصمت رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى تمنينا انه لم يساله، ثم قال:"قولوا: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، كما صليت على إبراهيم، وبارك على محمد وعلى آل محمد، كما باركت على آل إبراهيم، في العالمين إنك حميد مجيد، والسلام كما قد علمتم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نُعَيْمٍ الْمُجْمِرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيَّ الَّذِي كَانَ أُرِيَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيَّ، قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ مَعَنَا فِي مَجْلِسِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ لَهُ بَشِيرُ بْنُ سَعْدٍ وَهُوَ أَبُو النُّعْمَانِ بْنُ بَشِيرٍ: أَمَرَنَا اللَّهُ أَنْ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ قَالَ: فَصَمَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَمَنَّيْنَا أَنَّهُ لَمْ يَسْأَلْهُ، ثُمَّ قَالَ:"قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَالسَّلَامُ كَمَا قَدْ عَلِمْتُمْ".
نعیم مجمر سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سے مروی ہے کہ محمد بن عبداللہ بن زید انصاری جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اذان دینے کا خواب دیکھا تھا (خواب ان کے والد عبداللہ نے دیکھا تھا کما مر و کما فی مسلم)، انہوں نے بتایا کہ سیدنا ابومسعود انصاری عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو سعد بن عبادہ کی مجلس میں ہمارے ساتھ بیٹھ گئے، بشیر بن سعد نے آپ سے عرض کیا جو کہ ابونعمان بن بشیر ہیں: اے اللہ کے رسول! ہم کو الله تعالیٰ نے درود کا حکم دیا ہے، ہم کس طرح آپ پر درود پڑھیں؟ آپ نے فرمایا: اس طرح کہو: «اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيْمَ فِي الْعَالَمِيْنَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ» اور سلام کا طریقہ تو تم جانتے ہی ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1382]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المؤطا 70]، [مسلم 405]، [أبوداؤد 980]، [ترمذي 3220]، [نسائي 1284]، [ابن حبان 1958، 1959]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1378 سے 1380)
درود شریف کا جو صیغہ اس حدیث میں مذکور ہے وہ پہلی والی روایت سے قدرے مختلف ہے، معنی دونوں کا ایک ہی ہے، ان میں سے جو چاہے درود پڑھا جا سکتا ہے۔
لیکن صرف وہی صیغہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بروایتِ صحیحہ منقول ہے، اپنی طرف سے بنائے ہوئے درود پڑھنا بدعت و گمراہی ہے، اس سے بچنا از بس ضروری ہے ورنہ ٹھکانا جہنم ہے «(أعاذنا اللّٰه وإياكم منه)» بعض لوگ صحیحین میں وارد درود کو صحیح نہیں کہتے جو سراسر غلط اور صحیحین کی روایات میں تشکیک کی ناروا کوشش ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
86. باب الدُّعَاءِ بَعْدَ التَّشَهُّدِ:
86. تشہد میں دعا کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1381
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، عن حسان، عن محمد بن ابي عائشة، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا فرغ احدكم من التشهد، فليتعوذ بالله من اربع: من عذاب جهنم، وعذاب القبر، وفتنة المحيا والممات، وشر المسيح الدجال".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا فَرَغَ أَحَدُكُمْ مِنْ التَّشَهُّدِ، فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ أَرْبَعٍ: مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَفِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَشَرِّ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی جب تشہد سے فارغ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ سے چار چیزوں کی پناہ طلب کرے: جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح الدجال کے فتنے سے۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1383]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 588]، [أبوداؤد 983]، [نسائي 1309]، [ابن ماجه 909]، [أبويعلی 6133 وغيرهم]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 1382
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، نحوه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، نَحْوَهُ.
اوزاعی سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1384]»
یہ روایت اس سند سے صرف امام دارمی رحمہ اللہ نے روایت کی ہے جو ضعیف ہے، لیکن مذکورہ بالا سند صحیح ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1380 سے 1382)
تشہد میں التحیات اور درود و سلام کے بعد دعا کرنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا ہے جو چاہیں دعا کریں جیسا کہ گذر چکا ہے۔
مذکورہ بالا روایت میں حکم ہے کہ چار چیزوں سے پناہ مانگو اس لئے بعض علماء نے اس دعا یعنی: «اَللّٰهُمَّ أَعُوْبِكَ» کو تشہد میں پڑھنا واجب کہا ہے۔
اسی طرح «اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ ظُلْمًا كَثِيْرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِيْ مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِيْ إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمْ.» کہنا بھی ماثور و درست ہے، نیز «رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِيْ الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ.» کہنا بھی سنّت ہے، اس کے علاوہ بھی کئی دعائیں ہیں جو تشہد میں پڑھنا سنّت ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تشہد میں صرف ان دعاؤں کے پڑھنے کو ترجیح دی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنی ثابت ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
87. باب التَّسْلِيمِ في الصَّلاَةِ:
87. سلام پھیرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1383
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا عبد الله بن جعفر، عن إسماعيل بن محمد بن سعد، عن عامر بن سعد، عن ابيه، قال:"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسلم عن يمينه حتى يرى بياض خده، ثم يسلم عن يساره حتى يرى بياض خده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ خَدِّهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَنْ يَسَارِهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ خَدِّهِ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں طرف سلام پھیرتے تو آپ کے رخسار کی سفیدی دکھائی دینے لگتی پھر بائیں طرف سلام پھیرتے تو (بائیں) رخسار کی سفیدی دکھائی دیتی۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 1385]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 582]، [نسائي 1315]، [ابن ماجه 915]، [أبويعلی 801]، [ابن حبان 1992]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
حدیث نمبر: 1384
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن شعبة، عن الحكم، ومنصور، عن مجاهد، عن ابي معمر، قال: صليت خلف رجل بمكة "فسلم تسليمتين"، فذكرت ذلك لعبد الله، فقال: انى علقها؟ وقال الحكم: كان النبي صلى الله عليه وسلم يفعل ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الْحَكَمِ، وَمَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ رَجُلٍ بِمَكَّةَ "فَسَلَّمَ تَسْلِيمَتَيْنِ"، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: أَنَّى عَلِقَهَا؟ وَقَالَ الْحَكَمُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ ذَلِكَ.
ابومعمر نے کہا: مکہ میں میں نے ایک آدمی کے پیچھے نماز پڑھی اور اس نے دونوں طرف سلام پھیرا، میں نے اس کا تذکرہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کیا تو انہوں نے کہا: اسے یہ (سنت) کہاں سے مل گئی؟ اور حکم نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1386]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 581]، [أبويعلی 5244]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1382 سے 1384)
حکم کے قول کے مطابق سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ایک طرف سلام پھیرنے کے قائل ہیں لیکن یہ درست نہیں۔
صحابہ کرام دونوں طرف سلام پھیرتے تھے اور یہی سنّت و واجب ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
88. باب الْقَوْلِ بَعْدَ السَّلاَمِ:
88. سلام پھیرنے کے بعد دعا کا بیان
حدیث نمبر: 1385
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، انبانا عاصم، عن ابي الوليد هو عبد الله بن الحارث، عن عائشة، قالت: ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يجلس بعد الصلاة إلا قدر ما يقول: "اللهم انت السلام، ومنك السلام، تباركت يا ذا الجلال والإكرام".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبأَنَا عَاصِمٌ، عَنْ أَبِي الْوَلِيدِ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُ بَعْدَ الصَّلَاةِ إِلَّا قَدْرَ مَا يَقُولُ: "اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ، وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد اتنا ہی بیٹھتے تھے جتنی دیر میں یہ ہیں: «اَللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَا ذَالْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ» .

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1387]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 592]، [أبوداؤد 1512]، [ترمذي 298]، [نسائي 1237]، [ابن ماجه 924]، [أبويعلی 4721]، [ابن حبان 2000، 2001]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    13    14    15    16    17    18    19    20    21    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.