صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: انصار کے مناقب
The Merits of Al-Ansar
حدیث نمبر: 3860
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عمرو بن يحيى بن سعيد، قال: اخبرني جدي، عن ابي هريرة رضي الله عنه:" انه كان يحمل مع النبي صلى الله عليه وسلم إداوة لوضوئه وحاجته , فبينما هو يتبعه بها، فقال: من هذا؟ فقال: انا ابو هريرة، فقال:" ابغني احجارا استنفض بها , ولا تاتني بعظم ولا بروثة" , فاتيته باحجار احملها في طرف ثوبي حتى وضعت إلى جنبه، ثم انصرفت حتى إذا فرغ مشيت، فقلت: ما بال العظم والروثة؟ قال:" هما من طعام الجن وإنه اتاني وفد جن نصيبين ونعم الجن , فسالوني الزاد , فدعوت الله لهم ان لا يمروا بعظم ولا بروثة إلا وجدوا عليها طعاما".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَدِّي، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" أَنَّهُ كَانَ يَحْمِلُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِدَاوَةً لِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ , فَبَيْنَمَا هُوَ يَتْبَعُهُ بِهَا، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: أَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، فَقَالَ:" ابْغِنِي أَحْجَارًا أَسْتَنْفِضْ بِهَا , وَلَا تَأْتِنِي بِعَظْمٍ وَلَا بِرَوْثَةٍ" , فَأَتَيْتُهُ بِأَحْجَارٍ أَحْمِلُهَا فِي طَرَفِ ثَوْبِي حَتَّى وَضَعْتُ إِلَى جَنْبِهِ، ثُمَّ انْصَرَفْتُ حَتَّى إِذَا فَرَغَ مَشَيْتُ، فَقُلْتُ: مَا بَالُ الْعَظْمِ وَالرَّوْثَةِ؟ قَالَ:" هُمَا مِنْ طَعَامِ الْجِنِّ وَإِنَّهُ أَتَانِي وَفْدُ جِنِّ نَصِيبِينَ وَنِعْمَ الْجِنُّ , فَسَأَلُونِي الزَّادَ , فَدَعَوْتُ اللَّهَ لَهُمْ أَنْ لَا يَمُرُّوا بِعَظْمٍ وَلَا بِرَوْثَةٍ إِلَّا وَجَدُوا عَلَيْهَا طَعَامًا".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے دادا نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو اور قضائے حاجت کے لیے (پانی کا) ایک برتن لیے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں؟ بتایا کہ میں ابوہریرہ ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ استنجے کے لیے چند پتھر تلاش کر لاؤ اور ہاں ہڈی اور لید نہ لانا۔ تو میں پتھر لے کر حاضر ہوا۔ میں انہیں اپنے کپڑے میں رکھے ہوئے تھا اور لا کر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب اسے رکھ دیا اور وہاں سے واپس چلا آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت سے فارغ ہو گئے تو میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ ہڈی اور گوبر میں کیا بات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس لیے کہ وہ جنوں کی خوراک ہیں۔ میرے پاس نصیبین کے جنوں کا ایک وفد آیا تھا اور کیا ہی اچھے وہ جن تھے۔ تو انہوں نے مجھ سے توشہ مانگا میں نے ان کے لیے اللہ سے یہ دعا کی کہ جب بھی ہڈی یا گوبر پر ان کی نظر پڑے تو ان کے لیے اس چیز سے کھانا ملے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: That once he was in the, company of the Prophet carrying a water pot for his ablution and for cleaning his private parts. While he was following him carrying it(i.e. the pot), the Prophet said, "Who is this?" He said, "I am Abu Huraira." The Prophet said, "Bring me stones in order to clean my private parts, and do not bring any bones or animal dung." Abu Huraira went on narrating: So I brought some stones, carrying them in the corner of my robe till I put them by his side and went away. When he finished, I walked with him and asked, "What about the bone and the animal dung?" He said, "They are of the food of Jinns. The delegate of Jinns of (the city of) Nasibin came to me--and how nice those Jinns were--and asked me for the remains of the human food. I invoked Allah for them that they would never pass by a bone or animal dung but find food on them."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 200


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
33. بَابُ إِسْلاَمُ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
33. باب: ابوذر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ۔
(33) Chapter. The conversion of Abu Dhar Al-Ghifari to Islam.
حدیث نمبر: 3861
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني عمرو بن عباس، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا المثنى، عن ابي جمرة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" لما بلغ ابا ذر مبعث النبي صلى الله عليه وسلم، قال: لاخيه اركب إلى هذا الوادي فاعلم لي علم هذا الرجل الذي يزعم انه نبي ياتيه الخبر من السماء , واسمع من قوله ثم ائتني , فانطلق الاخ حتى قدمه وسمع من قوله , ثم رجع إلى ابي ذر، فقال له: رايته يامر بمكارم الاخلاق وكلاما ما هو بالشعر، فقال: ما شفيتني مما اردت فتزود وحمل شنة له فيها ماء حتى قدم مكة فاتى المسجد , فالتمس النبي صلى الله عليه وسلم ولا يعرفه وكره ان يسال عنه حتى ادركه بعض الليل , فاضطجع فرآه علي فعرف انه غريب , فلما رآه تبعه فلم يسال واحد منهما صاحبه عن شيء حتى اصبح , ثم احتمل قربته وزاده إلى المسجد وظل ذلك اليوم ولا يراه النبي صلى الله عليه وسلم حتى امسى , فعاد إلى مضجعه فمر به علي، فقال: اما نال للرجل ان يعلم منزله , فاقامه فذهب به معه لا يسال واحد منهما صاحبه عن شيء حتى إذا كان يوم الثالث , فعاد علي على مثل ذلك فاقام معه، ثم قال: الا تحدثني ما الذي اقدمك، قال: إن اعطيتني عهدا وميثاقا لترشدني فعلت , ففعل فاخبره، قال: فإنه حق وهو رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا اصبحت فاتبعني , فإني إن رايت شيئا اخاف عليك قمت كاني اريق الماء , فإن مضيت فاتبعني حتى تدخل مدخلي , ففعل فانطلق يقفوه حتى دخل على النبي صلى الله عليه وسلم ودخل معه فسمع من قوله واسلم مكانه، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" ارجع إلى قومك فاخبرهم حتى ياتيك امري"، قال: والذي نفسي بيده لاصرخن بها بين ظهرانيهم , فخرج حتى اتى المسجد فنادى باعلى صوته: اشهد ان لا إله إلا الله , وان محمدا رسول الله , ثم قام القوم فضربوه حتى اضجعوه , واتى العباس فاكب عليه، قال:" ويلكم الستم تعلمون انه من غفار وان طريق تجاركم إلى الشام , فانقذه منهم ثم عاد من الغد لمثلها , فضربوه وثاروا إليه فاكب العباس عليه".(مرفوع) حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمَّا بَلَغَ أَبَا ذَرٍّ مَبْعَثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لِأَخِيهِ ارْكَبْ إِلَى هَذَا الْوَادِي فَاعْلَمْ لِي عِلْمَ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ يَأْتِيهِ الْخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ , وَاسْمَعْ مِنْ قَوْلِهِ ثُمَّ ائْتِنِي , فَانْطَلَقَ الْأَخُ حَتَّى قَدِمَهُ وَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ , ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَبِي ذَرٍّ، فَقَالَ لَهُ: رَأَيْتُهُ يَأْمُرُ بِمَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَكَلَامًا مَا هُوَ بِالشِّعْرِ، فَقَالَ: مَا شَفَيْتَنِي مِمَّا أَرَدْتُ فَتَزَوَّدَ وَحَمَلَ شَنَّةً لَهُ فِيهَا مَاءٌ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فَأَتَى الْمَسْجِدَ , فَالْتَمَسَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَعْرِفُهُ وَكَرِهَ أَنْ يَسْأَلَ عَنْهُ حَتَّى أَدْرَكَهُ بَعْضُ اللَّيْلِ , فَاضْطَجَعَ فَرَآهُ عَلِيٌّ فَعَرَفَ أَنَّهُ غَرِيبٌ , فَلَمَّا رَآهُ تَبِعَهُ فَلَمْ يَسْأَلْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَصْبَحَ , ثُمَّ احْتَمَلَ قِرْبَتَهُ وَزَادَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ وَظَلَّ ذَلِكَ الْيَوْمَ وَلَا يَرَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَمْسَى , فَعَادَ إِلَى مَضْجَعِهِ فَمَرَّ بِهِ عَلِيٌّ، فَقَالَ: أَمَا نَالَ لِلرَّجُلِ أَنْ يَعْلَمَ مَنْزِلَهُ , فَأَقَامَهُ فَذَهَبَ بِهِ مَعَهُ لَا يَسْأَلُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الثَّالِثِ , فَعَادَ عَلِيٌّ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ فَأَقَامَ مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا تُحَدِّثُنِي مَا الَّذِي أَقْدَمَكَ، قَالَ: إِنْ أَعْطَيْتَنِي عَهْدًا وَمِيثَاقًا لَتُرْشِدَنِّي فَعَلْتُ , فَفَعَلَ فَأَخْبَرَهُ، قَالَ: فَإِنَّهُ حَقٌّ وَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَاتْبَعْنِي , فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ شَيْئًا أَخَافُ عَلَيْكَ قُمْتُ كَأَنِّي أُرِيقُ الْمَاءَ , فَإِنْ مَضَيْتُ فَاتْبَعْنِي حَتَّى تَدْخُلَ مَدْخَلِي , فَفَعَلَ فَانْطَلَقَ يَقْفُوهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَخَلَ مَعَهُ فَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ وَأَسْلَمَ مَكَانَهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْجِعْ إِلَى قَوْمِكَ فَأَخْبِرْهُمْ حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي"، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ , فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ , ثُمَّ قَامَ الْقَوْمُ فَضَرَبُوهُ حَتَّى أَضْجَعُوهُ , وَأَتَى الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ، قَالَ:" وَيْلَكُمْ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ مِنْ غِفَارٍ وَأَنَّ طَرِيقَ تِجَارِكُمْ إِلَى الشَّأْمِ , فَأَنْقَذَهُ مِنْهُمْ ثُمَّ عَادَ مِنَ الْغَدِ لِمِثْلِهَا , فَضَرَبُوهُ وَثَارُوا إِلَيْهِ فَأَكَبَّ الْعَبَّاسُ عَلَيْهِ".
مجھ سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے، کہا ہم سے مثنیٰ نے، ان سے ابوجمرہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ابوذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا مکہ جانے کے لیے سواری تیار کر اور اس شخص کے متعلق جو نبی ہونے کا مدعی ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبر آتی ہے۔ میرے لیے خبریں حاصل کر کے لا۔ اس کی باتوں کو خود غور سے سننا اور پھر میرے پاس آنا۔ ان کے بھائی وہاں سے چلے اور مکہ حاضر ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں خود سنیں پھر واپس ہو کر انہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ میں نے انہیں خود دیکھا ہے، وہ اچھے اخلاق کا لوگوں کو حکم کرتے ہیں اور میں نے ان سے جو کلام سنا وہ شعر نہیں ہے۔ اس پر ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا جس مقصد کے لیے میں نے تمہیں بھیجا تھا مجھے اس پر پوری طرح تشفی نہیں ہوئی، آخر انہوں نے خود توشہ باندھا، پانی سے بھرا ہوا ایک پرانا مشکیزہ ساتھ لیا اور مکہ آئے، مسجد الحرام میں حاضری دی اور یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہیں تھے اور کسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھنا بھی مناسب نہیں سمجھا، کچھ رات گزر گئی کہ وہ لیٹے ہوئے تھے۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اس حالت میں دیکھا اور سمجھ گئے کہ کوئی مسافر ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ آپ میرے گھر پر چل کر آرام کیجئے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے پیچھے چلے گئے لیکن کسی نے ایک دوسرے کے بارے میں بات نہیں کی۔ جب صبح ہوئی تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنا مشکیزہ اور توشہ اٹھایا اور مسجد الحرام میں آ گئے۔ یہ دن بھی یونہی گزر گیا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکے۔ شام ہوئی تو سونے کی تیاری کرنے لگے۔ علی رضی اللہ عنہ پھر وہاں سے گزرے اور سمجھ گئے کہ ابھی اپنے ٹھکانے جانے کا وقت اس شخص پر نہیں آیا، وہ انہیں وہاں سے پھر اپنے ساتھ لے آئے اور آج بھی کسی نے ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی، تیسرا دن جب ہوا اور علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ یہی کام کیا اور اپنے ساتھ لے گئے تو ان سے پوچھا کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہاں آنے کا باعث کیا ہے؟ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے پختہ وعدہ کر لو کہ میری راہ نمائی کرو گے تو میں تم کو سب کچھ بتا دوں گا۔ علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کر لیا تو انہوں نے اپنے خیالات کی خبر دی۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بلاشبہ وہ حق پر ہیں اور اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اچھا صبح کو تم میرے پیچھے پیچھے میرے ساتھ چلنا۔ اگر میں (راستے میں) کوئی ایسی بات دیکھوں گا جس سے مجھے تمہارے بارے میں خطرہ ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا۔ (کسی دیوار کے قریب) گویا مجھے پیشاب کرنا ہے، اس وقت تم میرا انتظار نہ کرنا اور جب میں پھر چلنے لگوں تو میرے پیچھے آ جانا تاکہ کوئی سمجھ نہ سکے کہ یہ دونوں ساتھ ہیں اور اس طرح جس گھر میں، میں داخل ہوں تم بھی داخل ہو جانا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور پیچھے پیچھے چلے تاآنکہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے۔ آپ کی باتیں سنیں اور وہیں اسلام لے آئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اب اپنی قوم غفار میں واپس جاؤ اور انہیں میرا حال بتاؤ تاآنکہ جب ہمارے غلبہ کا علم تم کو ہو جائے (تو پھر ہمارے پاس آ جانا) ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان قریشیوں کے مجمع میں پکار کر کلمہ توحید کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے واپس وہ مسجد الحرام میں آئے اور بلند آواز سے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ یہ سنتے ہی سارا مجمع ان پر ٹوٹ پڑا اور انہیں اتنا مارا کہ زمین پر لٹا دیا اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے اوپر اپنے آپ کو ڈال کر قریش سے کہا افسوس کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غفار سے ہے اور شام جانے والے تمہارے تاجروں کا راستہ ادھر ہی سے پڑتا ہے اس طرح سے ان سے ان کو بچایا۔ پھر ابوذر رضی اللہ عنہ دوسرے دن مسجد الحرام میں آئے اور اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ قوم پھر بری طرح ان پر ٹوٹ پڑی اور مارنے لگی اس دن بھی عباس رضی اللہ عنہ ان پر اوندھے پڑ گئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: When Abu Dhar received the news of the Advent of the Prophet he said to his brother, "Ride to this valley (of Mecca) and try to find out the truth of the person who claims to be a prophet who is informed of the news of Heaven. Listen to what he says and come back to me." So his brother set out and came to the Prophet and listened to some of his talks, and returned to Abu Dhar and said to him. "I have seen him enjoining virtuous behavior and saying something that is not poetry." Abu Dhar said, "You have not satisfied me as to what I wanted." He then took his journey-food and carried a waterskin of his, containing some water till be reached Mecca. He went to the Mosque and searched for the Prophet and though he did not know him, he hated to ask anybody about him. When a part of the night had passed away, `Ali saw him and knew that he was a stranger. So when Abu Dhar saw `Ali, he followed him, and none of them asked his companion about anything, and when it was dawn, Abu Dhar took his journey food and his water-skin to the Mosque and stayed there all the day long without being perceived by the Prophet, and when it was evening, he came back to his retiring place. `Ali passed by him and said, "Has the man not known his dwelling place yet?" So `Ali awakened him and took him with him and none of them spoke to the other about anything. When it was the third day. `Ali did the same and Abu Dhar stayed with him. Then `Ali said "Will you tell me what has brought you here?" Abu Dhar said, "If you give me a firm promise that you will guide me, then I will tell you." `Ali promised him, and he informed `Ali about the matter. `Ali said, "It is true, and he is the Apostle of Allah. Next morning when you get up, accompany me, and if I see any danger for you, I will stop as if to pass water, but if I go on, follow me and enter the place which I will enter." Abu Dhar did so, and followed `Ali till he entered the place of the Prophet, and Abu Dhar went in with him, Abu Dhar listened to some of the Prophet's talks and embraced Islam on the spot. The Prophet said to him, "Go back to your people and inform them (about it) till you receive my order." Abu Dhar said, "By Him in Whose Hand my life is, I will proclaim my conversion loudly amongst them (i.e. the pagans)." So he went out, and when he reached the Mosque, he said as loudly as possible, "I bear witness that None has the right to be worshipped except Allah, and Muhammad is the Apostle of Allah." The People got up and beat him painfully. Then Al-Abbas came and knelt over him ((to protect him) and said (to the people), "Woe to you! Don't you know that this man belongs to the tribe of Ghifar and your trade to Sha'm is through their way?" So he rescued him from them. Abu Dhar again did the same the next day. They beat him and took vengeance on him and again Al-Abbas knelt over him (to protect him).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 201


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
34. بَابُ إِسْلاَمُ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
34. باب: سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنا۔
(34) Chapter. The conversion of Said bin Zaid to Islam.
حدیث نمبر: 3862
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا سفيان، عن إسماعيل، عن قيس، قال: سمعت سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل في مسجد الكوفة، يقول:" والله لقد رايتني وإن عمر لموثقي على الإسلام قبل ان يسلم عمر ولو ان احدا ارفض للذي صنعتم بعثمان لكان".(موقوف) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ، يَقُولُ:" وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَإِنَّ عُمَرَ لَمُوثِقِي عَلَى الْإِسْلَامِ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ عُمَرُ وَلَوْ أَنَّ أُحُدًا ارْفَضَّ لِلَّذِي صَنَعْتُمْ بِعُثْمَانَ لَكَانَ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے بیان کیا کہ میں نے کوفہ کی مسجد میں سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ ایک وقت تھا جب عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام لانے سے پہلے مجھے اس وجہ سے باندھ رکھا تھا کہ میں نے اسلام کیوں قبول کیا لیکن تم لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کی وجہ سے اگر احد پہاڑ بھی اپنی جگہ سے سرک جائے تو اسے ایسا کرنا ہی چاہئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Qais: I heard Sa`id bin Zaid bin `Amr bin Nufail saying in the mosque of Al-Kufa. "By Allah, I have seen myself tied and forced by `Umar to leave Islam before `Umar himself embraced Islam. And if the mountain of Uhud could move from its place for the evil which you people have done to `Uthman, then it would have the right to move from its place."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 202


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
35. بَابُ إِسْلاَمِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
35. باب: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ۔
(35) Chapter. The conversion of Umar bin Al-Khattab to Islam.
حدیث نمبر: 3863
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثني محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن قيس بن ابي حازم، عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، قال:" ما زلنا اعزة منذ اسلم عمر".(موقوف) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" مَا زِلْنَا أَعِزَّةً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ".
مجھ سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں اسماعیل بن ابی خالد نے، انہیں قیس بن ابی حازم نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد ہم لوگ ہمیشہ عزت سے رہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin Mus'ud: We have been powerful since `Umar embraced Islam.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 203


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3864
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثني يحيى بن سليمان، قال: حدثني ابن وهب، قال: حدثني عمر بن محمد، قال: فاخبرني جدي زيد بن عبد الله بن عمر، عن ابيه، قال:" بينما هو في الدار خائفا إذ جاءه العاص بن وائل السهمي ابو عمرو عليه حلة حبرة , وقميص مكفوف بحرير وهو من بني سهم وهم حلفاؤنا في الجاهلية، فقال له: ما بالك؟ قال: زعم قومك انهم سيقتلوني إن اسلمت، قال: لا سبيل إليك بعد ان امنت فخرج العاص فلقي الناس قد سال بهم الوادي، فقال: اين تريدون؟ فقالوا: نريد هذا ابن الخطاب الذي صبا، قال: لا سبيل إليه , فكر الناس".(موقوف) حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: فَأَخْبَرَنِي جَدِّي زَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" بَيْنَمَا هُوَ فِي الدَّارِ خَائِفًا إِذْ جَاءَهُ الْعَاصِ بْنُ وَائِلٍ السَّهْمِيُّ أَبُو عَمْرٍو عَلَيْهِ حُلَّةُ حِبَرَةٍ , وَقَمِيصٌ مَكْفُوفٌ بِحَرِيرٍ وَهُوَ مِنْ بَنِي سَهْمٍ وَهُمْ حُلَفَاؤُنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ لَهُ: مَا بَالُكَ؟ قَالَ: زَعَمَ قَوْمُكَ أَنَّهُمْ سَيَقْتُلُونِي إِنْ أَسْلَمْتُ، قَالَ: لَا سَبِيلَ إِلَيْكَ بَعْدَ أَنْ أَمِنْتُ فَخَرَجَ الْعَاصِ فَلَقِيَ النَّاسَ قَدْ سَالَ بِهِمْ الْوَادِي، فَقَالَ: أَيْنَ تُرِيدُونَ؟ فَقَالُوا: نُرِيدُ هَذَا ابْنَ الْخَطَّابِ الَّذِي صَبَا، قَالَ: لَا سَبِيلَ إِلَيْهِ , فَكَرَّ النَّاسُ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد نے بیان کیا، کہا مجھ کو میرے دادا زید بن عبداللہ بن عمرو نے خبر دی، ان سے ان کے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ (اسلام لانے کے بعد قریش سے) ڈرے ہوئے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ابوعمرو عاص بن وائل سہمی اندر آیا، ایک دھاری دار چادر اور ریشمی کرتہ پہنے ہوئے تھا۔ وہ قبیلہ بنو سہم سے تھا جو زمانہ جاہلیت میں ہمارے حلیف تھے۔ عاص نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کیا بات ہے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہاری قوم بنو سہم والے کہتے ہیں کہ اگر میں مسلمان ہوا تو وہ مجھ کو مار ڈالیں گے۔ عاص نے کہا تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا جب عاص نے یہ کلمہ کہہ دیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں بھی اپنے کو امان میں سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد عاص باہر نکلا تو دیکھا کہ میدان لوگوں سے بھر گیا ہے۔ عاص نے پوچھا کدھر کا رخ ہے؟ لوگوں نے کہا ہم ابن خطاب کی خبر لینے جاتے ہیں جو بےدین ہو گیا ہے۔ عاص نے کہا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، یہ سنتے ہی لوگ لوٹ گئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin `Umar: While `Umar was at home in a state of fear, there came Al-`As bin Wail As-Sahmi Abu `Amr, wearing an embroidered cloak and a shirt having silk hems. He was from the tribe of Bani Sahm who were our allies during the pre-Islamic period of ignorance. Al-`As said to `Umar "What is wrong with you?" He said, "Your people claim that they would kill me if I become a Muslim." Al-`As said, "Nobody will harm you after I have given protection to you." So Al-`As went out and met the people streaming in the whole valley. He said, "Where are you going?" They said, "We want Ibn Al-Khattab who has embraced Islam." Al-`As said, "There is no way for anybody to touch him." So the people retreated.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 204


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3865
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال عمرو بن دينار: سمعته قال: قال عبد الله بن عمر رضي الله عنهما:" لما اسلم عمر اجتمع الناس عند داره، وقالوا: صبا عمر وانا غلام فوق ظهر بيتي , فجاء رجل عليه قباء من ديباج، فقال: قد صبا عمر فما ذاك فانا له جار، قال: فرايت الناس تصدعوا عنه، فقلت: من هذا؟ قالوا: العاص بن وائل".(موقوف) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ: سَمِعْتُهُ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ اجْتَمَعَ النَّاسُ عِنْدَ دَارِهِ، وَقَالُوا: صَبَا عُمَرُ وَأَنَا غُلَامٌ فَوْقَ ظَهْرِ بَيْتِي , فَجَاءَ رَجُلٌ عَلَيْهِ قَبَاءٌ مِنْ دِيبَاجٍ، فَقَالَ: قَدْ صَبَا عُمَرُ فَمَا ذَاكَ فَأَنَا لَهُ جَارٌ، قَالَ: فَرَأَيْتُ النَّاسَ تَصَدَّعُوا عَنْهُ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: الْعَاصِ بْنُ وَائِلٍ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عمرو بن دینار سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو لوگ ان کے گھر کے قریب جمع ہو گئے اور کہنے لگے کہ عمر بےدین ہو گیا ہے۔ میں ان دنوں بچہ تھا اور اس وقت اپنے گھر کی چھت پر چڑھا ہوا تھا۔ اچانک ایک شخص آیا جو ریشم کی قباء پہنے ہوئے تھا، اس شخص نے لوگوں سے کہا ٹھیک ہے عمر بےدین ہو گیا لیکن یہ مجمع کیسا ہے؟ دیکھو میں عمر کو پناہ دے چکا ہوں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ اس کی یہ بات سنتے ہی لوگ الگ الگ ہو گئے۔ میں نے پوچھا یہ کون صاحب تھے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ عاص بن وائل ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin `Umar: When `Umar embraced Islam, all The (disbelieving) people gathered around his home and said, "`Umar has embraced Islam." At that time I was still a boy and was on the roof of my house. There came a man wearing a cloak of Dibaj (i.e. a kind of silk), and said, "`Umar has embraced Islam. Nobody can harm him for I am his protector." I then saw the people going away from `Umar and asked who the man was, and they said, "Al-`As bin Wail."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 205


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3866
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن سليمان، قال: حدثني ابن وهب، قال: حدثني عمر , ان سالما حدثه، عن عبد الله بن عمر، قال: ما سمعت عمر لشيء قط يقول:" إني لاظنه كذا إلا كان كما يظن بينما عمر جالس إذ مر به رجل جميل، فقال: لقد اخطا ظني , او إن هذا على دينه في الجاهلية , او لقد كان كاهنهم علي الرجل فدعي له، فقال له: ذلك، فقال: ما رايت كاليوم استقبل به رجل مسلم، قال: فإني اعزم عليك إلا ما اخبرتني، قال: كنت كاهنهم في الجاهلية، قال: فما اعجب ما جاءتك به جنيتك، قال: بينما انا يوما في السوق جاءتني اعرف فيها الفزع، فقالت: الم تر الجن وإبلاسها وياسها من بعد إنكاسها ولحوقها بالقلاص واحلاسها، قال عمر: صدق بينما انا نائم عند آلهتهم إذ جاء رجل بعجل , فذبحه فصرخ به صارخ لم اسمع صارخا قط اشد صوتا منه، يقول: يا جليح امر نجيح رجل فصيح، يقول: لا إله إلا الله , فوثب القوم، قلت: لا ابرح حتى اعلم ما وراء هذا , ثم نادى يا جليح امر نجيح رجل فصيح يقول: لا إله إلا الله , فقمت فما نشبنا ان قيل: هذا نبي".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ , أَنَّ سَالِمًا حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: مَا سَمِعْتُ عُمَرَ لِشَيْءٍ قَطُّ يَقُولُ:" إِنِّي لَأَظُنُّهُ كَذَا إِلَّا كَانَ كَمَا يَظُنُّ بَيْنَمَا عُمَرُ جَالِسٌ إِذْ مَرَّ بِهِ رَجُلٌ جَمِيلٌ، فَقَالَ: لَقَدْ أَخْطَأَ ظَنِّي , أَوْ إِنَّ هَذَا عَلَى دِينِهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ , أَوْ لَقَدْ كَانَ كَاهِنَهُمْ عَلَيَّ الرَّجُلَ فَدُعِيَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ: ذَلِكَ، فَقَالَ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ اسْتُقْبِلَ بِهِ رَجُلٌ مُسْلِمٌ، قَالَ: فَإِنِّي أَعْزِمُ عَلَيْكَ إِلَّا مَا أَخْبَرْتَنِي، قَالَ: كُنْتُ كَاهِنَهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، قَالَ: فَمَا أَعْجَبُ مَا جَاءَتْكَ بِهِ جِنِّيَّتُكَ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا يَوْمًا فِي السُّوقِ جَاءَتْنِي أَعْرِفُ فِيهَا الْفَزَعَ، فَقَالَتْ: أَلَمْ تَرَ الْجِنَّ وَإِبْلَاسَهَا وَيَأْسَهَا مِنْ بَعْدِ إِنْكَاسِهَا وَلُحُوقَهَا بِالْقِلَاصِ وَأَحْلَاسِهَا، قَالَ عُمَرُ: صَدَقَ بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ عِنْدَ آلِهَتِهِمْ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ بِعِجْلٍ , فَذَبَحَهُ فَصَرَخَ بِهِ صَارِخٌ لَمْ أَسْمَعْ صَارِخًا قَطُّ أَشَدَّ صَوْتًا مِنْهُ، يَقُولُ: يَا جَلِيحْ أَمْرٌ نَجِيحْ رَجُلٌ فَصِيحْ، يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , فَوَثَبَ الْقَوْمُ، قُلْتُ: لَا أَبْرَحُ حَتَّى أَعْلَمَ مَا وَرَاءَ هَذَا , ثُمَّ نَادَى يَا جَلِيحْ أَمْرٌ نَجِيحْ رَجُلٌ فَصِيحْ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , فَقُمْتُ فَمَا نَشِبْنَا أَنْ قِيلَ: هَذَا نَبِيٌّ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمرو بن محمد بن زید نے بیان کیا، ان سے سالم نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب بھی عمر رضی اللہ عنہ نے کسی چیز کے متعلق کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ اس طرح ہے تو وہ اسی طرح ہوئی جیسا وہ اس کے متعلق اپنا خیال ظاہر کرتے تھے۔ ایک دن وہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خوبصورت شخص وہاں سے گزرا۔ انہوں نے کہا یا تو میرا گمان غلط ہے یا یہ شخص اپنے جاہلیت کے دین پر اب بھی قائم ہے یا یہ زمانہ جاہلیت میں اپنی قوم کا کاہن رہا ہے۔ اس شخص کو میرے پاس بلاؤ۔ وہ شخص بلایا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے سامنے بھی یہی بات دہرائی۔ اس پر اس نے کہا میں نے تو آج کے دن کا سا معاملہ کبھی نہیں دیکھا جو کسی مسلمان کو پیش آیا ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا لیکن میں تمہارے لیے ضروری قرار دیتا ہوں کہ تم مجھے اس سلسلے میں بتاؤ۔ اس نے اقرار کیا کہ زمانہ جاہلیت میں، میں اپنی قوم کا کاہن تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا غیب کی جو خبریں تمہاری جنیہ تمہارے پاس لاتی تھی، اس کی سب سے حیرت انگیز کوئی بات سناؤ؟ شخص مذکور نے کہا کہ ایک دن میں بازار میں تھا کہ جنیہ میرے پاس آئی۔ میں نے دیکھا کہ وہ گھبرائی ہوئی ہے، پھر اس نے کہا جنوں کے متعلق تمہیں معلوم نہیں۔ جب سے انہیں آسمانی خبروں سے روک دیا گیا ہے وہ کس درجہ ڈرے ہوئے ہیں، مایوس ہو رہے ہیں اور اونٹنیوں کے پالان کی کملیوں سے مل گئے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے سچ کہا۔ ایک مرتبہ میں بھی ان دنوں بتوں کے قریب سویا ہوا تھا۔ ایک شخص ایک بچھڑا لایا اور اس نے بت پر اسے ذبح کر دیا اس کے اندر سے اس قدر زور کی آواز نکلی کہ میں نے ایسی شدید چیخ کبھی نہیں سنی تھی۔ اس نے کہا: اے دشمن! ایک بات بتلاتا ہوں جس سے مراد مل جائے ایک فصیح خوش بیان شخص یوں کہتا ہے لا الہٰ الا اللہ یہ سنتے ہی تمام لوگ (جو وہاں موجود تھے) چونک پڑے (چل دئیے) میں نے کہا میں تو نہیں جانے کا، دیکھو اس کے بعد کیا ہوتا ہے۔ پھر یہی آواز آئی ارے دشمن تجھ کو ایک بات بتلاتا ہوں جس سے مراد بر آئے ایک فصیح شخص یوں کہہ رہا ہے لا الہٰ الا اللہ۔ اس وقت میں کھڑا ہوا اور ابھی کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ لوگ کہنے لگے یہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے سچے رسول ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin `Umar: I never heard `Umar saying about something that he thought it would be so-and-so, but he was quite right. Once, while `Umar was sitting, a handsome man passed by him, `Umar said, "If I am not wrong, this person is still on his religion of the pre-lslamic period of ignorance or he was their foreteller. Call the man to me." When the man was called to him, he told him of his thought. The man said, "I have never seen such a day on which a Muslim is faced with such an accusation." `Umar said, "I am determined that you should tell me the truth." He said, "I was a foreteller in the pre-lslamic period of ignorance." Then `Umar said, "Tell me the most astonishing thing your female Jinn has told you of." He said, "One-day while I was in the market, she came to me scared and said, 'Haven't you seen the Jinns and their despair and they were overthrown after their defeat (and prevented from listening to the news of the heaven) so that they (stopped going to the sky and) kept following camel-riders (i.e. 'Arabs)?" `Umar said, "He is right." and added, "One day while I was near their idols, there came a man with a calf and slaughtered it as a sacrifice (for the idols). An (unseen) creature shouted at him, and I have never heard harsher than his voice. He was crying, 'O you bold evil-doer! A matter of success! An eloquent man is saying: None has the right to be worshipped except you (O Allah).' On that the people fled, but I said, 'I shall not go away till I know what is behind this.' Then the cry came again: 'O you bold evil-doer! A matter of success! An eloquent man is saying: None has the right to be worshipped except Allah.' I then went away and a few days later it was said, "A prophet has appeared."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 206


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3867
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثني محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، حدثنا إسماعيل، حدثنا قيس، قال: سمعت سعيد بن زيد، يقول للقوم:" لو رايتني موثقي عمر على الإسلام انا واخته وما اسلم ولو ان احدا انقض لما صنعتم بعثمان لكان محقوقا ان ينقض".(موقوف) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ، يَقُولُ لِلْقَوْمِ:" لَوْ رَأَيْتُنِي مُوثِقِي عُمَرُ عَلَى الْإِسْلَامِ أَنَا وَأُخْتُهُ وَمَا أَسْلَمَ وَلَوْ أَنَّ أُحُدًا انْقَضَّ لِمَا صَنَعْتُمْ بِعُثْمَانَ لَكَانَ مَحْقُوقًا أَنْ يَنْقَضَّ".
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے قیس نے، کہا کہ میں نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا ایک وقت تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ جب اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے تو مجھے اور اپنی بہن کو اس لیے باندھ رکھا تھا کہ ہم اسلام کیوں لائے اور آج تم نے جو کچھ عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ برتاؤ کیا ہے اگر اس پر احد پہاڑ بھی اپنی جگہ سے سرک جائے تو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Qais: I heard Sa`id bin Zaid saying to the people, "If you but saw me and `Umar's sister tied and forced by `Umar to leave Islam while he was not yet a Muslim. And if the mountain of Uhud could move from its place for the evil which you people have done to `Uthman, it would have the right to do that."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 207


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
36. بَابُ انْشِقَاقِ الْقَمَرِ:
36. باب: چاند کے پھٹ جانے کا بیان۔
(36) Chapter. The splitting of the moon (into two pieces).
حدیث نمبر: 3868
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني عبد الله بن عبد الوهاب، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا سعيد بن ابي عروبة، عن قتادة، عن انس بن مالك رضي الله عنه:" ان اهل مكة سالوا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يريهم آية , فاراهم القمر شقتين حتى راوا حراء بينهما".(مرفوع) حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً , فَأَرَاهُمُ الْقَمَرَ شِقَّتَيْنِ حَتَّى رَأَوْا حِرَاءً بَيْنَهُمَا".
مجھ سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ کفار مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نشانی کا مطالبہ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھا دئیے۔ یہاں تک کہ انہوں نے حرا پہاڑ کو ان دونوں ٹکڑوں کے بیچ میں دیکھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas bin Malik: The people of Mecca asked Allah's Apostle to show them a miracle. So he showed them the moon split in two halves between which they saw the Hira' mountain.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 208


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3869
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبدان، عن ابي حمزة، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن ابي معمر، عن عبد الله رضي الله عنه، قال: انشق القمر ونحن مع النبي صلى الله عليه وسلم بمنى، فقال:" اشهدوا" , وذهبت فرقة نحو الجبل، وقال ابو الضحى: عن مسروق، عن عبد الله: انشق بمكة.وتابعه محمد بن مسلم، عن ابن ابي نجيح، عن مجاهد، عن ابي معمر، عن عبد الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: انْشَقَّ الْقَمَرُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى، فَقَالَ:" اشْهَدُوا" , وَذَهَبَتْ فِرْقَةٌ نَحْوَ الْجَبَلِ، وَقَالَ أَبُو الضُّحَى: عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ: انْشَقَّ بِمَكَّةَ.وَتَابَعَهُ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ محمد بن میمون نے، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جس وقت چاند کے دو ٹکڑے ہوئے تو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ کے میدان میں موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ لوگو! گواہ رہنا اور چاند کا ایک ٹکڑا دوسرے سے الگ ہو کر پہاڑ کی طرف چلا گیا تھا اور ابوالضحیٰ نے بیان کیا، ان سے مسروق نے، ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ شق قمر کا معجزہ مکہ میں پیش آیا تھا۔ ابراہیم نخعی کے ساتھ اس کی متابعت محمد بن مسلم نے کی ہے، ان سے ابونجیح نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے، ان سے ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah: The moon was split ( into two pieces ) while we were with the Prophet in Mina. He said, "Be witnesses." Then a Piece of the moon went towards the mountain.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 209


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    6    7    8    9    10    11    12    13    14    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.