(موقوف) حدثني يحيى بن سليمان، قال: حدثني ابن وهب، قال: حدثني عمر بن محمد، قال: فاخبرني جدي زيد بن عبد الله بن عمر، عن ابيه، قال:" بينما هو في الدار خائفا إذ جاءه العاص بن وائل السهمي ابو عمرو عليه حلة حبرة , وقميص مكفوف بحرير وهو من بني سهم وهم حلفاؤنا في الجاهلية، فقال له: ما بالك؟ قال: زعم قومك انهم سيقتلوني إن اسلمت، قال: لا سبيل إليك بعد ان امنت فخرج العاص فلقي الناس قد سال بهم الوادي، فقال: اين تريدون؟ فقالوا: نريد هذا ابن الخطاب الذي صبا، قال: لا سبيل إليه , فكر الناس".(موقوف) حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: فَأَخْبَرَنِي جَدِّي زَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" بَيْنَمَا هُوَ فِي الدَّارِ خَائِفًا إِذْ جَاءَهُ الْعَاصِ بْنُ وَائِلٍ السَّهْمِيُّ أَبُو عَمْرٍو عَلَيْهِ حُلَّةُ حِبَرَةٍ , وَقَمِيصٌ مَكْفُوفٌ بِحَرِيرٍ وَهُوَ مِنْ بَنِي سَهْمٍ وَهُمْ حُلَفَاؤُنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ لَهُ: مَا بَالُكَ؟ قَالَ: زَعَمَ قَوْمُكَ أَنَّهُمْ سَيَقْتُلُونِي إِنْ أَسْلَمْتُ، قَالَ: لَا سَبِيلَ إِلَيْكَ بَعْدَ أَنْ أَمِنْتُ فَخَرَجَ الْعَاصِ فَلَقِيَ النَّاسَ قَدْ سَالَ بِهِمْ الْوَادِي، فَقَالَ: أَيْنَ تُرِيدُونَ؟ فَقَالُوا: نُرِيدُ هَذَا ابْنَ الْخَطَّابِ الَّذِي صَبَا، قَالَ: لَا سَبِيلَ إِلَيْهِ , فَكَرَّ النَّاسُ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد نے بیان کیا، کہا مجھ کو میرے دادا زید بن عبداللہ بن عمرو نے خبر دی، ان سے ان کے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ (اسلام لانے کے بعد قریش سے) ڈرے ہوئے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ابوعمرو عاص بن وائل سہمی اندر آیا، ایک دھاری دار چادر اور ریشمی کرتہ پہنے ہوئے تھا۔ وہ قبیلہ بنو سہم سے تھا جو زمانہ جاہلیت میں ہمارے حلیف تھے۔ عاص نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کیا بات ہے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہاری قوم بنو سہم والے کہتے ہیں کہ اگر میں مسلمان ہوا تو وہ مجھ کو مار ڈالیں گے۔ عاص نے کہا ”تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا“ جب عاص نے یہ کلمہ کہہ دیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں بھی اپنے کو امان میں سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد عاص باہر نکلا تو دیکھا کہ میدان لوگوں سے بھر گیا ہے۔ عاص نے پوچھا کدھر کا رخ ہے؟ لوگوں نے کہا ہم ابن خطاب کی خبر لینے جاتے ہیں جو بےدین ہو گیا ہے۔ عاص نے کہا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، یہ سنتے ہی لوگ لوٹ گئے۔
Narrated `Abdullah bin `Umar: While `Umar was at home in a state of fear, there came Al-`As bin Wail As-Sahmi Abu `Amr, wearing an embroidered cloak and a shirt having silk hems. He was from the tribe of Bani Sahm who were our allies during the pre-Islamic period of ignorance. Al-`As said to `Umar "What is wrong with you?" He said, "Your people claim that they would kill me if I become a Muslim." Al-`As said, "Nobody will harm you after I have given protection to you." So Al-`As went out and met the people streaming in the whole valley. He said, "Where are you going?" They said, "We want Ibn Al-Khattab who has embraced Islam." Al-`As said, "There is no way for anybody to touch him." So the people retreated.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 204
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3864
حدیث حاشیہ: حضرت عمر بن خطاب ؓ کی کنیت ابو حفصہ ہے عدوی اور قریشی ہیں۔ نبوت کے پانچویں یا چھٹے سال اسلام لائے اور ان کے اسلام قبول کرنے کے دن سے اسلام نمایاں ہونا شروع ہوا۔ اسی وجہ سے ان کا لقب فاروق ہوگیا، آپ گورے رنگ کے تھے سرخی غالب تھی، قد کے لمبے تھے۔ تمام غزوات نبوی میں شریک ہوئے۔ حضرت صدیق اکبر ؓ کے بعد دس سال چھ ماہ خلیفہ رہے۔ مغیر ہ بن شعبہ ؓ کے غلام ابو لولو نے مدینہ میں بدھ کے دن نماز فجر میں36ذی الحجہ24ھ کو خنجر سے آپ ؓ پر حملہ کیا۔ آپ یکم محرم الحرام 25ھ کو چار دن بیمار رہ کر واصل بحق ہوئے۔ 63سال کی عمر پائی۔ نماز جنازہ حضرت صہیب رومی نے پڑھائی اور حجرئہ نبوی میں جگہ ملى۔ عمر وبن عاص بن وائل سہمی قریشی ہیں۔ بقول بعض 8ھ میں حضرت خالد بن ولید ؓ اور عثمان بن طلحہ ؓ کے ساتھ مسلمان ہوئے۔ ان کو آنحضرت ﷺ نے عمان کا حاکم بنا دیا تھا۔ وفات نبوی تک یہ عمان کے حاکم رہے۔ حضرت عمر ؓ کی خلافت میں ان ہی کے ہاتھ پر مصر فتح ہوا۔ مصر ہی میں43ھ میں بعمر نوے سال وفات پائی۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3864
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3864
حدیث حاشیہ: 1۔ جو شخص اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر مسلمان ہوجاتا عرب اسے صابی کہتے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے جب اسلام قبول کیا توقبیلہ بنو سہم نے انھیں بے دین کہا اور ان کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ 2۔ عاص اپنی قوم کا سردار تھا اور اس کی بات مانی جاتی اور پیروی کی جاتی تھی جب اس نے کہا کہ عمر ؓ پر تمہارا کوئی بس نہیں چلے گاتو اس حوصلہ افزائی سے حضرت عمر ؓ کا خوف جاتا رہا۔ 3۔ حضرت عمر ؓ نبوت کے پانچویں یا چھٹے سال مسلمان ہوئے۔ ان کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کا خوف وہراس جاتارہا اور لوگوں میں اسلام نمایاں ہونا شروع ہوگیا۔ ان کے دورخلافت میں اسلام نے خوب ترقی کی اور بہت فتوحات ہوئیں۔ 4۔ واضح رہے کہ عاص بن وائل حضرت عمرو بن عاص سہمی کے والد ہیں۔ اس نے زمانہ اسلام تو پایا لیکن مسلمان نہ ہوا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3864