(موقوف) حدثني محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، حدثنا إسماعيل، حدثنا قيس، قال: سمعت سعيد بن زيد، يقول للقوم:" لو رايتني موثقي عمر على الإسلام انا واخته وما اسلم ولو ان احدا انقض لما صنعتم بعثمان لكان محقوقا ان ينقض".(موقوف) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ، يَقُولُ لِلْقَوْمِ:" لَوْ رَأَيْتُنِي مُوثِقِي عُمَرُ عَلَى الْإِسْلَامِ أَنَا وَأُخْتُهُ وَمَا أَسْلَمَ وَلَوْ أَنَّ أُحُدًا انْقَضَّ لِمَا صَنَعْتُمْ بِعُثْمَانَ لَكَانَ مَحْقُوقًا أَنْ يَنْقَضَّ".
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے قیس نے، کہا کہ میں نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا ایک وقت تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ جب اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے تو مجھے اور اپنی بہن کو اس لیے باندھ رکھا تھا کہ ہم اسلام کیوں لائے اور آج تم نے جو کچھ عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ برتاؤ کیا ہے اگر اس پر احد پہاڑ بھی اپنی جگہ سے سرک جائے تو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے۔
Narrated Qais: I heard Sa`id bin Zaid saying to the people, "If you but saw me and `Umar's sister tied and forced by `Umar to leave Islam while he was not yet a Muslim. And if the mountain of Uhud could move from its place for the evil which you people have done to `Uthman, it would have the right to do that."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 207
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3867
حدیث حاشیہ: حضرت سعید بن زید ؓ کی زبانی بھی حضرت عمر ؓ کا ذکر ہے، باب اور حدیث میں یہ ی مطابقت ہے۔ حضرت سعید سیدنا حضرت عثمان غنی ؓ کی شہا دت پر اظہار افسوس کر رہے ہیں اور بتلا رہے ہیں کہ یہ حادثہ ایسا زبر دست ہے کہ اس کا اثر اگر احد پہاڑ بھی قبول کرے تو بجاہے إنا للہ وإنا الیه راجعون۔ شہادت حضرت عثمان ؓ واقعی بہت بڑا حادثہ ہے جس سے اسلام میں رخنہ شروع ہوا۔ حضرت عمر ؓ کے اسلام لانے کا واقعہ: سیر کی کتابوں میں طول کے ساتھ مذکورہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ابو جہل نے یہ کہا کہ جو کوئی محمد ﷺ کا سر لائے میں اس کو سو اونٹ انعام دوں گا۔ عمر ؓ تلوار لٹکا کر چلے، راستے میں کسی نے کہا محمد ﷺ کو بعد میں مارنا اپنے بہنوئی سعید بن زید ؓ اور بہن سے تو سمجھ لو، وہ دونوں مسلمان ہوگئے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے اپنی بہن کے گھر پہنچ کر بہنوئی اور بہن دونوں کی مشکیں کسیں، خوب مارا پیٹا اخیر کو ----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- نادم ہوئے، اپنی بہن سے کہنے لگے ذرا مجھ کو وہ کلا م تو سناؤ جو تم میاں بیوی میرے آنے کے وقت پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تم بے وضو ہو، وضو کرو۔ حضرت عمر نے وضو کیا اور مصحف کھول کر پڑھنے لگے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ زبان سے یہ کلمہ پاک نکل پڑا اأشھد أن لا إله إلا اللہ وأشھد أن محمدا رسول اللہ پھر آنحضرت ﷺ کے پاس آئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے عمر! مسلمان ہوجا انہوں نے صدق دل سے کلمہپڑھا سارے مسلمانوں نے خوشی سے تکبیر کہی۔ (وحیدی) حضرت اقبال نے حضرت عمر ؓ کے اسلام قبول کرنے کو یوں بیان کیا ہے نمی دانی کہ سوز قرات تو دگر گوں کردتقدیر عمررا یعنی قرآن پاک کی قرات کے سوز نے جو ان کی بہن فاطمہ ؓ کے لحن سے ظاہر ہورہا تھا حضرت عمر ؓ کی قسمت کو بدل دیا اور وہ اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ افسوس آج وہ قرآ ن پاک ہے قرات کر نے والے بکثرت موجود ہیں مگر وہ سوز مفقود ہے۔ حضرت عمرؓ کے بہنوئی کا نام سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ہے، یہ آپ کے چچا زاد بھائی بھی ہوتے تھے۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3867
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3867
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت سعید بن زید ؓ حضرت عمر ؓ کے چچازاد بھائی اور ان کے بہنوئی ہیں۔ ان کی ہمشیر حضرت فاطمہ ؓ، حضرت سعید ؓ کے نکاح میں تھیں۔ جب ان دونوں نے اسلام قبول کرلیا توحضرت عمر ؓ بحالت کفر انھیں رسیوں سے باندھ کر ان کی تذلیل کیا کرتے تھے۔ حضرت سعید بن زید ؓ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ ہمارے ساتھ ایسا سلوک کفر کی حالت میں کرتے تھے جب کہ تم لوگوں نے مسلمان ہوتے ہوئے حضرت عثمان ؓ کے ساتھ ایسا بُرا سلوک کیا ہے کہ اگر اس وجہ سے احد پہاڑ گرپڑے اور ریزہ ریزہ ہوجائے تو واقعی اس لائق ہے۔ واللہ اعلم۔ 2۔ سیرت کی کتابوں میں حضرت عمر ؓ کے اسلام لانے کا واقعہ اس طرح لکھا ہے کہ ابوجہل نے اعلان کیا: جو کوئی حضرت محمد ﷺ کا سر لائےگا میں اسے ایک سواونٹ بطور انعام دوں گا۔ حضرت عمر ؓ اپنی تلوار سونت کر نکلے تو کیس نے کہا: پہلے اپنے بہنوئی اور بہن کی خبر لو، وہ دونوں مسلمان ہوگئے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے اپنی بہن کے گھر کا رخ کیا۔ وہاں جاکر بہن اور بہنوئی کو رسیوں سے جکڑ دیا اور اپنی بہن کو بہت مارا۔ آخر شرم سار ہوکر کہنے لگے: مجھے وہ کلام سناؤ جو تم میرے آنے سے پہلے پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے جب وہ کلام سنا اور پڑھاتو کلمہ شہادت بے ساختہ منہ سے نکل گیا اور مسلمان ہوگئے۔ ان کے مسلمان ہونے سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ۔ ۔ رضي اللہ تعالیٰ عنه۔ ۔ ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3867