صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: انصار کے مناقب
The Merits of Al-Ansar
35. بَابُ إِسْلاَمِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
35. باب: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ۔
(35) Chapter. The conversion of Umar bin Al-Khattab to Islam.
حدیث نمبر: 3866
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن سليمان، قال: حدثني ابن وهب، قال: حدثني عمر , ان سالما حدثه، عن عبد الله بن عمر، قال: ما سمعت عمر لشيء قط يقول:" إني لاظنه كذا إلا كان كما يظن بينما عمر جالس إذ مر به رجل جميل، فقال: لقد اخطا ظني , او إن هذا على دينه في الجاهلية , او لقد كان كاهنهم علي الرجل فدعي له، فقال له: ذلك، فقال: ما رايت كاليوم استقبل به رجل مسلم، قال: فإني اعزم عليك إلا ما اخبرتني، قال: كنت كاهنهم في الجاهلية، قال: فما اعجب ما جاءتك به جنيتك، قال: بينما انا يوما في السوق جاءتني اعرف فيها الفزع، فقالت: الم تر الجن وإبلاسها وياسها من بعد إنكاسها ولحوقها بالقلاص واحلاسها، قال عمر: صدق بينما انا نائم عند آلهتهم إذ جاء رجل بعجل , فذبحه فصرخ به صارخ لم اسمع صارخا قط اشد صوتا منه، يقول: يا جليح امر نجيح رجل فصيح، يقول: لا إله إلا الله , فوثب القوم، قلت: لا ابرح حتى اعلم ما وراء هذا , ثم نادى يا جليح امر نجيح رجل فصيح يقول: لا إله إلا الله , فقمت فما نشبنا ان قيل: هذا نبي".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ , أَنَّ سَالِمًا حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: مَا سَمِعْتُ عُمَرَ لِشَيْءٍ قَطُّ يَقُولُ:" إِنِّي لَأَظُنُّهُ كَذَا إِلَّا كَانَ كَمَا يَظُنُّ بَيْنَمَا عُمَرُ جَالِسٌ إِذْ مَرَّ بِهِ رَجُلٌ جَمِيلٌ، فَقَالَ: لَقَدْ أَخْطَأَ ظَنِّي , أَوْ إِنَّ هَذَا عَلَى دِينِهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ , أَوْ لَقَدْ كَانَ كَاهِنَهُمْ عَلَيَّ الرَّجُلَ فَدُعِيَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ: ذَلِكَ، فَقَالَ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ اسْتُقْبِلَ بِهِ رَجُلٌ مُسْلِمٌ، قَالَ: فَإِنِّي أَعْزِمُ عَلَيْكَ إِلَّا مَا أَخْبَرْتَنِي، قَالَ: كُنْتُ كَاهِنَهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، قَالَ: فَمَا أَعْجَبُ مَا جَاءَتْكَ بِهِ جِنِّيَّتُكَ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا يَوْمًا فِي السُّوقِ جَاءَتْنِي أَعْرِفُ فِيهَا الْفَزَعَ، فَقَالَتْ: أَلَمْ تَرَ الْجِنَّ وَإِبْلَاسَهَا وَيَأْسَهَا مِنْ بَعْدِ إِنْكَاسِهَا وَلُحُوقَهَا بِالْقِلَاصِ وَأَحْلَاسِهَا، قَالَ عُمَرُ: صَدَقَ بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ عِنْدَ آلِهَتِهِمْ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ بِعِجْلٍ , فَذَبَحَهُ فَصَرَخَ بِهِ صَارِخٌ لَمْ أَسْمَعْ صَارِخًا قَطُّ أَشَدَّ صَوْتًا مِنْهُ، يَقُولُ: يَا جَلِيحْ أَمْرٌ نَجِيحْ رَجُلٌ فَصِيحْ، يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , فَوَثَبَ الْقَوْمُ، قُلْتُ: لَا أَبْرَحُ حَتَّى أَعْلَمَ مَا وَرَاءَ هَذَا , ثُمَّ نَادَى يَا جَلِيحْ أَمْرٌ نَجِيحْ رَجُلٌ فَصِيحْ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , فَقُمْتُ فَمَا نَشِبْنَا أَنْ قِيلَ: هَذَا نَبِيٌّ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمرو بن محمد بن زید نے بیان کیا، ان سے سالم نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب بھی عمر رضی اللہ عنہ نے کسی چیز کے متعلق کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ اس طرح ہے تو وہ اسی طرح ہوئی جیسا وہ اس کے متعلق اپنا خیال ظاہر کرتے تھے۔ ایک دن وہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خوبصورت شخص وہاں سے گزرا۔ انہوں نے کہا یا تو میرا گمان غلط ہے یا یہ شخص اپنے جاہلیت کے دین پر اب بھی قائم ہے یا یہ زمانہ جاہلیت میں اپنی قوم کا کاہن رہا ہے۔ اس شخص کو میرے پاس بلاؤ۔ وہ شخص بلایا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے سامنے بھی یہی بات دہرائی۔ اس پر اس نے کہا میں نے تو آج کے دن کا سا معاملہ کبھی نہیں دیکھا جو کسی مسلمان کو پیش آیا ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا لیکن میں تمہارے لیے ضروری قرار دیتا ہوں کہ تم مجھے اس سلسلے میں بتاؤ۔ اس نے اقرار کیا کہ زمانہ جاہلیت میں، میں اپنی قوم کا کاہن تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا غیب کی جو خبریں تمہاری جنیہ تمہارے پاس لاتی تھی، اس کی سب سے حیرت انگیز کوئی بات سناؤ؟ شخص مذکور نے کہا کہ ایک دن میں بازار میں تھا کہ جنیہ میرے پاس آئی۔ میں نے دیکھا کہ وہ گھبرائی ہوئی ہے، پھر اس نے کہا جنوں کے متعلق تمہیں معلوم نہیں۔ جب سے انہیں آسمانی خبروں سے روک دیا گیا ہے وہ کس درجہ ڈرے ہوئے ہیں، مایوس ہو رہے ہیں اور اونٹنیوں کے پالان کی کملیوں سے مل گئے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے سچ کہا۔ ایک مرتبہ میں بھی ان دنوں بتوں کے قریب سویا ہوا تھا۔ ایک شخص ایک بچھڑا لایا اور اس نے بت پر اسے ذبح کر دیا اس کے اندر سے اس قدر زور کی آواز نکلی کہ میں نے ایسی شدید چیخ کبھی نہیں سنی تھی۔ اس نے کہا: اے دشمن! ایک بات بتلاتا ہوں جس سے مراد مل جائے ایک فصیح خوش بیان شخص یوں کہتا ہے لا الہٰ الا اللہ یہ سنتے ہی تمام لوگ (جو وہاں موجود تھے) چونک پڑے (چل دئیے) میں نے کہا میں تو نہیں جانے کا، دیکھو اس کے بعد کیا ہوتا ہے۔ پھر یہی آواز آئی ارے دشمن تجھ کو ایک بات بتلاتا ہوں جس سے مراد بر آئے ایک فصیح شخص یوں کہہ رہا ہے لا الہٰ الا اللہ۔ اس وقت میں کھڑا ہوا اور ابھی کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ لوگ کہنے لگے یہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے سچے رسول ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin `Umar: I never heard `Umar saying about something that he thought it would be so-and-so, but he was quite right. Once, while `Umar was sitting, a handsome man passed by him, `Umar said, "If I am not wrong, this person is still on his religion of the pre-lslamic period of ignorance or he was their foreteller. Call the man to me." When the man was called to him, he told him of his thought. The man said, "I have never seen such a day on which a Muslim is faced with such an accusation." `Umar said, "I am determined that you should tell me the truth." He said, "I was a foreteller in the pre-lslamic period of ignorance." Then `Umar said, "Tell me the most astonishing thing your female Jinn has told you of." He said, "One-day while I was in the market, she came to me scared and said, 'Haven't you seen the Jinns and their despair and they were overthrown after their defeat (and prevented from listening to the news of the heaven) so that they (stopped going to the sky and) kept following camel-riders (i.e. 'Arabs)?" `Umar said, "He is right." and added, "One day while I was near their idols, there came a man with a calf and slaughtered it as a sacrifice (for the idols). An (unseen) creature shouted at him, and I have never heard harsher than his voice. He was crying, 'O you bold evil-doer! A matter of success! An eloquent man is saying: None has the right to be worshipped except you (O Allah).' On that the people fled, but I said, 'I shall not go away till I know what is behind this.' Then the cry came again: 'O you bold evil-doer! A matter of success! An eloquent man is saying: None has the right to be worshipped except Allah.' I then went away and a few days later it was said, "A prophet has appeared."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 206


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري3866عبد الله بن عمريا جليح أمر نجيح رجل فصيح يقول لا إله إلا الله فوثب القوم قلت لا أبرح حتى أعلم ما وراء هذا ثم نادى يا جليح أمر نجيح رجل فصيح يقول لا إله إلا الله فقمت فما نشبنا أن قيل هذا نبي

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3866 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3866  
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓ نے اپنے قیافہ اور فراست کی بناپر اس گزرنے والے سے کہا کہ تو مسلمان ہے، یا کافر، یا کاہن ہے۔
ابو عمرو نے کہا یہ شخص جاہلیت کے زمانہ میں کہانت کیا کرتا تھا، حضرت عمر ؓ نے ایک دن مزاح کے طور پر اس سے فرمایا اے سواد! تیری کہانت اب کہاں گئی؟ اس پر وہ غصہّ ہوا کہنے لگا عمر! ہم جس حال میں پہلے تھے یعنی جاہلیت وکفر پر وہ کہانت سے بدتر تھا اور تم مجھ کو ایسی بات پر ملامت کرتے ہوجس سے میں توبہ کرچکا ہوں اور مجھ کو امید ہے کہ اللہ نے اس کو بخش دیا ہوگا۔
(وحیدی)
اس سے حضرت عمر ؓ کی کمال دانائی ثابت ہوئی اور یہی اس حدیث کو یہاں لانے کا مقصد ہے۔
پکار نے والا کوئی فرشتہ تھا جو آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے کی بشارت دے رہا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3866   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3866  
حدیث حاشیہ:

حضرت عمر ؓ کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ہر امت کا کوئی نہ کوئی محدث ہوا ہے،میری امت میں اگر کوئی محدث ہے تو وہ عمر ؓ ہیں۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3689۔
)


واقعی حضرت عمر ؓ جو بات کہتے وہ ہوجاتی جیسا کہ شروع حدیث میں حضرت ابن عمر ؓ نے ان کے متعلق اظہار خیال کیا ہے۔
حضرت عمر ؓ نے اس خوبصورت شخص کے متعلق جس گمان کا اظہار کیا وہ اسی طرح تھا، چنانچہ اس نے اقرار بھی کیا۔
ایک دن حضرت عمر نے اس شخص سے خوش طبعی کے طور پر فرمایا:
اب تیرے جن کا کیاحال ہے؟ وہ غصے سے بھر گیا اور کہنے لگا:
اے عمر! تم زمانہ جاہلیت میں جو شرک وغیرہ کرتے تھے وہ میرے پیشے کہانت سے زیادہ بُرا تھا۔
آپ مجھے کیوں شرمندہ کرتے ہیں جس سے میں اب تائب ہوچکا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اس کی بخشش کا امید وار ہوں۔

اس جن سے اس آدمی نے جو گفتگو کی تھی اس کا مطلب یہ تھا آخر الزمان نبی (صلی اللہ علیه وسلم)
کا ظہور ہونے والاہے۔
تمام جن عربوں کے تابع ہوجائیں گے اور ان کے دین کی پیروی کریں گے کیونکہ وہ نبی جنوں اور انسانوں دونوں کے لیے ہے۔

کہا جاتا ہے کہ یہی واقعہ حضرت عمر ؓ کے اسلام لانے کا باعث ہوا۔
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس واقعے کو اسلام عمر کے زیر عنوان بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 229/7۔
)

واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3866   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.