سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث منبر کے بارے میں پہلے گزر چکی ہے (دیکھئیے کتاب: نماز کا بیان۔۔۔ باب:۔ چھتوں پر، منبر پر اور لکڑیوں پر نماز پڑھنا) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (منبر) کے اوپر نماز پڑھی اور پھر الٹے پاؤں واپس اترے اس روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ پھر جب فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف منہ کر کے فرمایا: ”اے لوگو! میں نے یہ اسی لیے کیا تاکہ تم میری اقتداء کرو اور میرا (طریقہ) نماز سیکھ لو۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کھجور کے تنے کا ایک ستون تھا جس پر (ٹیک لگا کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تھے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے منبر رکھ دیا گیا تو ہم نے ستون سے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی جیسی رونے کی آواز سنی، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اور اپنا ہاتھ اس ستون پر رکھا۔ (تب وہ آواز ختم ہو گئی)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے تھے، اس کے بعد بیٹھ جاتے تھے، پھر کھڑے ہو جاتے تھے جیسا کہ تم اب کرتے ہو۔
سیدنا عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال یا کوئی چیز لائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو تقسیم کر دیا۔ کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ لوگوں کو نہیں دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی کہ جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا وہ ناخوش ہو گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: ”امابعد! اللہ کی قسم میں کسی کو دیتا ہوں اور کسی کو چھوڑ دیتا ہوں حالانکہ جس کو چھوڑ دیتا ہوں وہ میرے نزدیک اس سے کہ جس کو دیتا ہوں زیادہ پسند ہوتا ہے لیکن میں کچھ لوگوں کو اس لیے دیتا ہوں کہ ان کے دلوں میں بے چینی اور گھبراہٹ دیکھتا ہوں۔ (اور جنہیں میں نہیں دیتا ہوں) ان لوگوں کو میں اس سیر چشمی اور بھلائی کے حوالے کر دیتا ہوں جو اللہ نے ان کے دلوں میں پیدا کی ہے، انھیں لوگوں میں عمرو بن تغلب (رضی اللہ عنہ) بھی ہیں۔“(عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) اللہ کی قسم! میں نہیں چاہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلمہ کے عوض مجھے سرخ اونٹ بھی ملیں۔
سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات کو نماز کے بعد کھڑے ہو گئے اور تشہد پڑھا اور اللہ کی حمد بیان کی جیسا کہ اس کے لائق ہے پھر فرمایا ”امابعد!۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ(ایک روز) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور وہ آخری مجلس تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بڑی چادر اپنے شانوں پر ڈالے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سرمبارک مٹیالے رنگ کی ایک پٹی سے باندھ لیا تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو! میرے قریب آ جاؤ۔“ چنانچہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امابعد! پس یہ قبیلہ انصار کم ہوتے جائیں گے اور دوسرے لوگ بڑھتے جائیں گے لہٰذا جو شخص امت میں سے کسی چیز کا مالک ہو اور وہ اختیار رکھتا ہو کہ اس کے ذریعے کسی کو ضرر یا کسی کو فائدہ پہنچ سکتا ہو تو اس کو چاہیے کہ ان (یعنی انصار) میں سے نیکوکار کی (نیکی) کو قبول کرے اور ان میں خطاکار (کی خطا) سے تجاوز کرے۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص (مسجد میں) آیا (اور بیٹھ گیا) اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا: ”کیا تو دو رکعت (تحیۃ المسجد) پڑھ چکا ہے؟“ اس نے عرض کی کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اٹھ اور دو رکعت نماز پڑھ لے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں لوگوں پر قحط سالی پڑی تو جمعہ کے دن اس حالت میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، ایک اعرابی کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! مال تلف ہو گیا اور بچے بھوکے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے (بارش کی) دعا کیجئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور ہم (اس وقت) آسمان میں ایک ٹکڑا بھی بادل کا نہ دیکھتے تھے مگر قسم اس ذات (پاک) کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں کو سمیٹنے بھی نہ پائے کہ بادل پہاڑوں کی طرح چھا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منبر پر سے اترے نہیں یہاں تک کہ میں نے بارش کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک پر ٹپکتے ہوئے دیکھا۔ پھر اس دن ہم پر بارش ہوئی اور دوسرے دن اور تیسرے دن اور چوتھے دن (اسی طرح) دوسرے جمعہ تک بارش برستی رہی تو وہی اعرابی (یا انس رضی اللہ عنہ نے) کہا کہ (کوئی) دوسرا (آدمی جمعہ کے وقت) پھر کھڑا ہو گیا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! (بارش کی کثرت سے) مکان گر گئے اور مال ڈوب گیا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا: ”اے اللہ! ہمارے آس پاس مینہ برسا اور ہم پر نہ برسا“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بادل کے جس ٹکڑے کی طرف اشارہ کرتے تھے وہ ہٹ جاتا تھا اور پورا مدینہ (بادل سے صاف ہو کر) مثل حوض کے ہو گیا اور وادی قناۃ کا نالہ ایک مہینے تک بہتا رہا اور جو شخص کسی طرف سے آتا تھا وہ بارش کی کیفیت بیان کرتا تھا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اگر جمعہ کے دن جب امام خطبہ دے رہا ہو اور تو اپنے پاس والے سے یہ کہے کہ چپ رہ تو بیشک تو نے لغو حرکت کی۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا تو فرمایا: ”اس میں ایک ساعت ایسی ہے کہ اس کو جو مسلمان بندہ پا لے اور وہ کھڑا ہوا نماز پڑھ رہا ہو اور اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز ضرور دیدے گا۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس ساعت کی کمی بیان کرنے کے لیے اشارہ فرمایا۔