سیدنا ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چمڑے کے ایک سرخ خیمہ میں دیکھا اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو میں نے دیکھا کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کا پانی لیا اور لوگوں کو میں نے دیکھا کو وہ اس وضو (کے پانی) کو دست بدست لینے لگے، پھر جس کو اس میں سے کچھ مل جاتا تو وہ اسے (اپنے چہرے پر) مل لیتا تھا اور جسے اس میں سے کچھ نہ ملتا وہ اپنے پاس والے کے ہاتھ سے تری لے لیتا، پھر میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انھوں نے ایک چھوٹا نیزہ اٹھایا اور اسے گاڑ دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سرخ پوشاک میں (اپنی چادر) اٹھائے ہوئے برآمد ہوئے اور نیزے کی طرف لوگوں کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی اور میں نے لوگوں کو اور جانوروں کو دیکھا کہ وہ عنزہ کے آگے سے نکل جاتے تھے (یہاں غنزہ یا نیزہ کو بطور سترہ استعمال کیا گیا ہے)۔
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ منبر (نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) کس چیز کا تھا؟ تو وہ بولے اس بات کا جاننے والا لوگوں میں مجھ سے زیادہ (اب) کوئی نہیں (رہا)۔ وہ غابہ (جنگل) کے جھاؤ کا بنا ہوا تھا، اسے ایک عورت کے غلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنایا تھا اور جب بنا کر رکھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے اور قبلہ رو ہو کر تکبیر (تحریمہ) کہی اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآت کی اور رکوع فرمایا اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے رکوع کیا، پھر آپ نے اپنا سرمبارک اٹھایا، اس کے بعد پیچھے ہٹے یہاں تک کہ زمین پر سجدہ کیا، پھر منبر پر چڑھ گئے اور قرآت کی اور رکوع کیا پھر اپنا سر اٹھایا اور پیچھے ہٹے یہاں تک کہ زمین پر سجدہ کیا۔ پس منبر کا یہ قصہ تھا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی نانی ملیکہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھا نے کے لیے بلایا جو (خاص) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے انھوں نے تیار کیا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھایا، پھر فرمایا: ”کھڑے ہو جاؤ میں تمہارے لیے نماز پڑھ دوں۔“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنی ایک چٹائی کی طرف متوجہ ہوا جو کثرت استعمال سے سیاہ ہو گئی تھی تو میں نے اسے پانی سے دھویا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس پر) کھڑے ہو گئے اور میں نے اور ایک یتیم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھ لی اور بڑھیا اور ہمارے پیچھے تھی، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے دو رکعتیں پڑھ دیں اور لوٹ گئے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سو جاتی اور میرے دونوں پیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کی جگہ میں ہوتے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تھے تو مجھے دبا دیتے تھے، میں اپنے پیر سمیٹ لیتی تھی اور جب آپ کھڑے ہو جاتے تھے تو میں انھیں (پیروں کو) پھیلا دیتی تھی، ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں اس وقت تک گھروں میں چراغ نہ تھے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے بچھونے پر نماز پڑھتے ہوتے تھے اور وہ (یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور سجدہ کی جگہ کے درمیان (بچھونے پر) جنازہ کی مثل لیٹی ہوتی تھیں
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھتے تھے تو ہم میں سے کچھ لوگ گرمی کی شدت کی وجہ سے سجدہ کی جگہ پر اپنے کپڑے کا کنارہ بچھا لیتے تھے۔
ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو پیشاب کرتے ہوئے دیکھا، پھر انھوں نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ نماز کے بعد لوگوں نے ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ لوگوں کو یہ حدیث اچھی معلوم ہوتی تھی کہ کیونکہ یہ جریر رضی اللہ عنہ سب سے آخر میں اسلام لائے تھے۔
سیدنا عبداللہ بن مالک ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان کشادگی رکھتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سپیدی ظاہر ہوتی تھی۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی ہمارے (جیسی) نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے، تو وہی مسلمان ہے، جس کے لیے اللہ کا ذمہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ ہے۔ تو تم اللہ کی خیانت اس کے ذمہ (کے بارہ) میں نہ کرو۔“