-" إن ما بقي من الدنيا بلاء وفتنة، وإنما مثل عمل احدكم كمثل الوعاء، إذا طاب اعلاه طاب اسفله، وإذا خبث اعلاه خبث اسفله".-" إن ما بقي من الدنيا بلاء وفتنة، وإنما مثل عمل أحدكم كمثل الوعاء، إذا طاب أعلاه طاب أسفله، وإذا خبث أعلاه خبث أسفله".
سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”بے شک جو دنیا باقی رہ گئی ہے وہ آزمائش اور فتنہ ہے۔ تم میں سے ہر ایک کے عمل کی مثال برتن کی طرح ہے، جس (میں ڈالی گئی چیز) کا اوپر والا حصہ اچھا ہو تو نیچے والا بھی اچھا ہوتا ہے اور اگر اوپر والا حصہ گندہ ہو تو نیچے والا بھی گندا ہوتا ہے۔“
-" ايما اهل بيت من العرب والعجم اراد الله بهم خيرا ادخل عليهم الإسلام، ثم تقع الفتن كانها الظلل".-" أيما أهل بيت من العرب والعجم أراد الله بهم خيرا أدخل عليهم الإسلام، ثم تقع الفتن كأنها الظلل".
سیدنا کرز بن علقمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ تعالیٰ عرب و عجم کے جس گھرانے کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ کریں گے، ان کو اسلام میں داخل فرما دیں گے، پھر سائباں کہ طرح (کثرت سے) فتنے وقوع پزیر ہوں گے۔“
-" احبس عليك مالك. قاله لمن اراد ان يتصدق بحلي امه ولم توصه".-" احبس عليك مالك. قاله لمن أراد أن يتصدق بحلي أمه ولم توصه".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میری ماں فوت ہو گئی اور بغیر وصیت کے کچھ زیور چھوڑ گئی ہے، اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے نفع دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا مال اپنے پاس رکھو۔“
زیاد بن حصین اپنے باپ حصین بن قیس سے راویت کرتے ہیں کہ وہ مدینہ غلہ لے کر آئے، ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اعرابی! تو کون سی چیز اٹھا کر لایا ہے: اس نے کہا: گندم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے بارے تیرا کیا ارادہ ہے؟“ اس نے کہا: میں اس کو فروخت کرنا چاہتا ہوں۔ پھر اس بدو نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: ”اچھے طریقے سے اس اعرابی کے ساتھ خرید و فروخت کرو۔“
-" اخرجي فجدي نخلك لعلك ان تصدقي منه او تفعلي خيرا. قاله للمطلقة ثلاثا وهي في عدتها".-" اخرجي فجدي نخلك لعلك أن تصدقي منه أو تفعلي خيرا. قاله للمطلقة ثلاثا وهي في عدتها".
سیدنا جابر رضی اللہ کہتے ہیں: میری خالہ کو تین طلاقیں دے دی گئیں، وہ اپنی کھجوروں کا پھل توڑنے کے لیے باغ میں جا رہی تھی۔ اس کو ایک آدمی ملا، جس نے اس کو (عدت کی وجہ سے) ایسا کرنے سے روک دیا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنا معاملہ ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو چلی جایا کر اور کھجوروں کا پھل توڑ لیا کر، ممکن ہے کہ تو اس میں سے کچھ صدقہ کرے یا کوئی اور نیکی والا کام کرے۔“
-" اد الامانة إلى من ائتمنك، ولا تخن من خانك".-" أد الأمانة إلى من ائتمنك، ولا تخن من خانك".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے تیرے پاس امانت رکھی، اس کو اس کی امانت ادا کر دے اور تو اس سے خیانت نہ کر، جو تیرے ساتھ خیانت کرے۔“
-" ادخل الله عز وجل الجنة رجلا كان سهلا مشتريا وبائعا وقاضيا ومقتضيا".-" أدخل الله عز وجل الجنة رجلا كان سهلا مشتريا وبائعا وقاضيا ومقتضيا".
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ایک آدمی کو جنت میں داخل کیا، کیونکہ وہ خرید و فروخت کرنے اور قرض کی ادائیگی و وصولی کرنے میں نرم خو تھا۔“
-" إن الله يحب سمح البيع، سمح الشراء، سمح القضاء".-" إن الله يحب سمح البيع، سمح الشراء، سمح القضاء".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند کرتا ہے جو بیچنے میں نرمی اختیار کرنے والا خریدنے میں آسانی پیدا کرنے والا اور (قرض وغیرہ کی) ادائیگی میں نرم رویہ اختیار کرنے والا ہو۔“
-" إذا اختلف البيعان وليس بينهما بينة، فهو ما يقول رب السلعة او يتتاركان".-" إذا اختلف البيعان وليس بينهما بينة، فهو ما يقول رب السلعة أو يتتاركان".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب خرید و فروخت کرنے والے دو افراد جھگڑنے لگیں اور کسی کے پاس بھی کوئی دلیل نہ ہو تو وہی قول (معتبر) ہو گا جو سامان کا مالک کہے گا یا پھر وہ دونوں (اس سودے کو) فسخ کریں گے۔“
-" إذا انت بايعت فقل: لا خلابة، ثم انت في كل سلعة ابتعتها بالخيار ثلاث ليال فإن رضيت فامسك وإن سخطت فارددها على صاحبها".-" إذا أنت بايعت فقل: لا خلابة، ثم أنت في كل سلعة ابتعتها بالخيار ثلاث ليال فإن رضيت فأمسك وإن سخطت فارددها على صاحبها".
محمد بن یحییٰ بن حبان کہتے ہیں: منقذ بن عمرو میرے دادا ہیں، ان کے سر میں کوئی ایسی آفت آئی کہ اس نے ان کی زبان کو متاثر کر دیا، لیکن وہ اس کے باوجود تجارت سے باز نہیں آتے تھے اور ہمیشہ دھوکا کھا جاتے تھے۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ساری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تو سودا کرے تو یوں کہا: کر ”دھوکہ نہیں“ پھر تو جو سامان خریدے (اس کو واپس کرنے کے لیے) تجھے تین راتوں تک اختیار ہے اگر تجھے پسند آ جا ئے تو رکھ لے اور ناپسند ہونے کی صورت میں مالک کو واپس کردے۔“