وضاحت: ۱؎: موت کی یاد سے دنیا کی بے ثباتی ذہن میں جمتے ہی آخرت کا خیال پیدا ہوتا ہے، یہی فائدہ قبروں کی زیارت کا بھی ہے، نبی اکرم ﷺ نے موت کو لذتوں کو مٹانے والی کہا یعنی موت کی یاد آدمی کے دل و دماغ کو دنیا کی لذتوں سے دور کر دیتے ہیں، یا موت کے آتے ہی آدمی کا تعلق دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے خود بخود ختم ہو جاتا ہے، امام قرطبی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ یہ بڑا مختصر جملہ ہے، جو تذکیر و نصیحت میں بلیغ اور جامع ہے، کیونکہ جس نے صحیح معنوں میں موت کو یاد کیا تو اس سے اس پر دنیاوی لذت کرکری ہو جاتی ہے، اور مستقبل میں اس کی تمنا اور آرزو کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، اور جن نعمتوں کے بارے میں وہ سوچتا تھا، اس میں بڑی کمی آ جاتی ہے، لیکن غافل دل اور ٹھہری ہوئی طبیعتیں لمبے چوڑے وعظ و نصیحت اور تفنن کلام کی محتاج ہوتی ہیں، ورنہ حدیث رسول: لذتوں کو ختم کر دینے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو، اور آیت کریمہ: «كل نفس ذائقة الموت»”ہر نفس کو موت کا مزا چکنا ہے“(سورة الأنبياء: 35) ہی سامع کے لیے کافی ہے، اور دیکھنے والے کو مشغول کر دینے والی ہے، نیز کہتے ہیں: موت کی یاد کے نتیجے میں اس دار فانی سے بے رغبتی کا شعور و احساس پیدا ہوتا ہے، اور ہر لحظہ باقی رہنے والی آخرت کی طرف توجہ ہو جاتی ہے، تو انسان دو حالات میں گھر کر رہ جاتا ہے، ایک تنگی اور وسعت کی حالت اور دوسری نعمت و ابتلاء کی حالت تو تنگی اور ابتلاء کی صورت میں موت کی یاد سے یہ صورت حال اس کے لیے آسان ہو جاتی ہے کہ یہ حالت ہمیشہ برقرار رہنے والی نہیں ہے، بلکہ موت اس سے زیادہ سخت ہے، اور نعمت اور وسعت کی حالت میں موت کی یاد اس کو دنیاوی نعمتوں اور وسعتوں سے دھوکہ کھانے اور اس سے سکون حاصل کرنے سے روک دیتی ہے،اور موت انسان کو ان چیزوں سے دور کر دیتی ہے، موت کی کوئی معلوم عمر نہیں ہے، اور نہ اس کا زمانہ ہی معلوم ہے اور نہ اس کی بیماری ہی معلوم ہے، تو آدمی کو اس کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔ ملاحظہ ہو: التذکرۃ بأحوال الموتیٰ وأمورالآخرۃ (الفریوائی)
(مرفوع) حدثنا الزبير بن بكار , حدثنا انس بن عياض , حدثنا نافع بن عبد الله , عن فروة بن قيس , عن عطاء بن ابي رباح , عن ابن عمر , انه قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم , فجاءه رجل من الانصار , فسلم على النبي صلى الله عليه وسلم , ثم قال: يا رسول الله , اي المؤمنين افضل؟ قال:" احسنهم خلقا" , قال: فاي المؤمنين اكيس؟ قال:" اكثرهم للموت ذكرا , واحسنهم لما بعده استعدادا , اولئك الاكياس". (مرفوع) حَدَّثَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ , حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ , حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ فَرْوَةَ بْنِ قَيْسٍ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , أَنَّهُ قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ , فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا" , قَالَ: فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَكْيَسُ؟ قَالَ:" أَكْثَرُهُمْ لِلْمَوْتِ ذِكْرًا , وَأَحْسَنُهُمْ لِمَا بَعْدَهُ اسْتِعْدَادًا , أُولَئِكَ الْأَكْيَاسُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ آپ کے پاس ایک انصاری شخص آیا، اس نے آپ کو سلام کیا، پھر کہنے لگا: اللہ کے رسول! مومنوں میں سے کون سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو ان میں سب سے اچھے اخلاق والا ہے“، اس نے کہا: ان میں سب سے عقلمند کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ان میں موت کو سب سے زیادہ یاد کرے، اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے سب سے اچھی تیاری کرے، وہی عقلمند ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7333، ومصباح الزجاجة: 1524) (حسن)» (سند میں فروہ بن قیس اور نافع بن عبد اللہ مجہول ہیں، لیکن حدیث دوسرے شواہد سے حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1384)
ابو یعلیٰ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے، اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے، اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشوں پر لگا دے، پھر اللہ تعالیٰ سے تمنائیں کرے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/صفة القیامة 25 (2459)، تحفة الأشراف: (4820)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/124) (ضعیف)» (سند میں بقیہ مدلس اور ابن ابی مریم ضعیف ہیں)
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن الحكم بن ابي زياد , حدثنا سيار , حدثنا جعفر , عن ثابت , عن انس , ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل على شاب وهو في الموت , فقال:" كيف تجدك" , قال: ارجو الله يا رسول الله , واخاف ذنوبي , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يجتمعان في قلب عبد في مثل هذا الموطن , إلا اعطاه الله ما يرجو, وآمنه مما يخاف". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَكَمِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ , حَدَّثَنَا سَيَّارٌ , حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ , عَنْ ثَابِتٍ , عَنْ أَنَسٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى شَابٍّ وَهُوَ فِي الْمَوْتِ , فَقَالَ:" كَيْفَ تَجِدُكَ" , قَالَ: أَرْجُو اللَّهَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَأَخَافُ ذُنُوبِي , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ , إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا يَرْجُو, وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس آئے جو مرض الموت میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”تم اپنے آپ کو کیسا پاتے ہو“؟ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی رحمت کی امید کرتا ہوں، اور اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس بندے کے دل میں ایسے وقت میں یہ دونوں کیفیتیں جمع ہو جائیں، اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز دے گا جس کی وہ امید کرتا ہے، اور جس چیز سے ڈرتا ہے، اس سے محفوظ رکھے گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجنائز 11 (983)، (تحفة الأشراف: 262) (حسن)» (سند میں سیار بن حاتم ضعیف ہیں، لیکن شاہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1051)
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا شبابة , عن ابن ابي ذئب , عن محمد بن عمرو بن عطاء , عن سعيد بن يسار , عن ابي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" الميت تحضره الملائكة , فإذا كان الرجل صالحا , قالوا: اخرجي ايتها النفس الطيبة , كانت في الجسد الطيب , اخرجي حميدة , وابشري بروح وريحان ورب غير غضبان , فلا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج , ثم يعرج بها إلى السماء , فيفتح لها , فيقال: من هذا؟ فيقولون: فلان , فيقال: مرحبا بالنفس الطيبة , كانت في الجسد الطيب , ادخلي حميدة , وابشري بروح وريحان ورب غير غضبان , فلا يزال يقال لها ذلك حتى ينتهى بها إلى السماء التي فيها الله عز وجل , وإذا كان الرجل السوء , قال: اخرجي ايتها النفس الخبيثة , كانت في الجسد الخبيث , اخرجي ذميمة , وابشري بحميم وغساق وآخر من شكله ازواج , فلا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج , ثم يعرج بها إلى السماء , فلا يفتح لها , فيقال: من هذا؟ فيقال: فلان , فيقال: لا مرحبا بالنفس الخبيثة , كانت في الجسد الخبيث , ارجعي ذميمة , فإنها لا تفتح لك ابواب السماء , فيرسل بها من السماء ثم , تصير إلى القبر". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا شَبَابَةُ , عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" الْمَيِّتُ تَحْضُرُهُ الْمَلَائِكَةُ , فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ صَالِحًا , قَالُوا: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الطَّيِّبَةُ , كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ , اخْرُجِي حَمِيدَةً , وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ وَرَيْحَانٍ وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ , فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ , ثُمَّ يُعْرَجُ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ , فَيُفْتَحُ لَهَا , فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانٌ , فَيُقَالُ: مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الطَّيِّبَةِ , كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ , ادْخُلِي حَمِيدَةً , وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ وَرَيْحَانٍ وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ , فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذَلِكَ حَتَّى يُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ , وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ السُّوءُ , قَالَ: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ , كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ , اخْرُجِي ذَمِيمَةً , وَأَبْشِرِي بِحَمِيمٍ وَغَسَّاقٍ وَآخَرَ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٌ , فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ , ثُمَّ يُعْرَجُ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ , فَلَا يُفْتَحُ لَهَا , فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: فُلَانٌ , فَيُقَالُ: لَا مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الْخَبِيثَةِ , كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ , ارْجِعِي ذَمِيمَةً , فَإِنَّهَا لَا تُفْتَحُ لَكِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ , فَيُرْسَلُ بِهَا مِنَ السَّمَاءِ ثُمَّ , تَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مرنے والے کے پاس فرشتے آتے ہیں، اگر وہ نیک ہوتا ہے تو کہتے ہیں: نکل اے پاک جان! جو کہ ایک پاک جسم میں تھی، نکل، تو لائق تعریف ہے، اور خوش ہو جا، اللہ کی رحمت و ریحان (خوشبو) سے اور ایسے رب سے جو تجھ سے ناراض نہیں ہے، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نکل پڑتی ہے، پھر اس کو آسمان کی طرف چڑھا کر لے جایا جاتا ہے، اس کے لیے آسمان کا دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ فلاں ہے، کہا جاتا ہے: خوش آمدید! پاک جان جو کہ ایک پاک جسم میں تھی، تو داخل ہو جا، تو نیک ہے اور خوش ہو جا اللہ کی رحمت و ریحان (خوشبو) سے، اور ایسے رب سے جو تجھ سے ناخوش نہیں، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ روح اس آسمان تک پہنچ جاتی ہے جس کے اوپر اللہ عزوجل ہے، اور جب کوئی برا شخص ہوتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے: نکل اے ناپاک نفس، جو ایک ناپاک بدن میں تھی، نکل تو بری حالت میں ہے، خوش ہو جا گرم پانی اور پیپ سے، اور اس جیسی دوسری چیزوں سے، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نکل جاتی ہے، پھر اس کو آسمان کی طرف چڑھا کر لے جایا جاتا ہے، لیکن اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا، پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ جواب ملتا ہے: یہ فلاں ہے، کہا جاتا ہے: ناپاک روح کے لیے کوئی خوش آمدید نہیں، جو کہ ناپاک بدن میں تھی، لوٹ جا اپنی بری حالت میں، تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے، اس کو آسمان سے چھوڑ دیا جاتا ہے پھر وہ قبر میں آ جاتی ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے اللہ تعالی کا آسمان کے اوپر بلندی میں ہونا ثابت ہے، فاسد عقائد والے اس کا انکار کرتے ہیں، اور اہل حدیث اور اہل حق کو مشبہہ اور مجسمہ کہتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کے آسمان کے اوپر بلندی میں ہونے کے عقیدے پر کتاب و سنت کے بے شمار دلائل ہیں، اور صحابہ و تابعین و تبع تابعین اور ائمہ دین کا اس پر اتفاق ہے، اور یہ چیز انسان کی فطرت میں ہے کہ اپنے خالق و مالک کو پکارتے ہی اس کے ہاتھ اوپر اٹھ جاتے ہیں، اور نگاہیں اوپر دیکھنے لگتی ہیں۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کی موت کسی زمین میں لکھی ہوتی ہے تو ضرورت اس کو وہاں لے جاتی ہے، جب وہ اپنے آخری نقش قدم کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی روح قبض کر لیتا ہے، زمین قیامت کے دن کہے گی: اے رب! یہ تیری امانت ہے جو تو نے میرے سپرد کی تھی“۔
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف إسماعيل بن أبي خالد عنعن (تقدم:2618) وروى الترمذي (2146) عن رسول الله ﷺ: ((إذا قضى الله لعبد أن يموت بأرض جعل له إليها حاجة، أو قال: بها حاجة۔))وسند صحيح وقال الترمذي: ”هذا حديث صحيح“ وهو يغني عنه۔
(مرفوع) حدثنا يحيى بن خلف ابو سلمة , حدثنا عبد الاعلى , عن سعيد , عن قتادة , عن زرارة بن اوفى , عن سعد بن هشام , عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" من احب لقاء الله , احب الله لقاءه , ومن كره لقاء الله , كره الله لقاءه" , فقيل: يا رسول الله , كراهية لقاء الله في كراهية لقاء الموت , فكلنا يكره الموت , قال:" لا إنما ذاك عند موته , إذا بشر برحمة الله ومغفرته , احب لقاء الله , فاحب الله لقاءه , وإذا بشر بعذاب الله , كره لقاء الله , وكره الله لقاءه". (مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ أَبُو سَلَمَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى , عَنْ سَعِيدٍ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى , عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ , أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ , وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ , كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ" , فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , كَرَاهِيَةُ لِقَاءِ اللَّهِ فِي كَرَاهِيَةِ لِقَاءِ الْمَوْتِ , فَكُلُّنَا يَكْرَهُ الْمَوْتَ , قَالَ:" لَا إِنَّمَا ذَاكَ عِنْدَ مَوْتِهِ , إِذَا بُشِّرَ بِرَحْمَةِ اللَّهِ وَمَغْفِرَتِهِ , أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ , فَأَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ , وَإِذَا بُشِّرَ بِعَذَابِ اللَّهِ , كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ , وَكَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات پسند کرتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات ناپسند کرتا ہے“، آپ سے عرض کیا گیا: اللہ تعالیٰ سے ملنے کو برا جاننا یہ ہے کہ موت کو برا جانے، اور ہم میں سے ہر شخص موت کو برا جانتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ یہ موت کے وقت کا ذکر ہے، جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی مغفرت کی خوشخبری دی جاتی ہے، تو وہ اس سے ملنا پسند کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے، اور جب اس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی خبر دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے نہیں ملنا چاہتا“۔
(مرفوع) حدثنا عمران بن موسى , حدثنا عبد الوارث بن سعيد , حدثنا عبد العزيز بن صهيب , عن انس , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يتمنى احدكم الموت لضر نزل به , فإن كان لا بد متمنيا الموت فليقل: اللهم احيني ما كانت الحياة خيرا لي , وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي". (مرفوع) حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَتَمَنَّى أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ , فَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ مُتَمَنِّيًا الْمَوْتَ فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي , وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی کسی مصیبت کی وجہ سے جو اس کو پیش آئے موت کی تمنا نہ کرے، اگر موت کی خواہش کی ضرورت پڑ ہی جائے تو یوں کہے: اے اللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک جینا میرے لیے بہتر ہو، اور مجھے موت دے اگر مرنا میرے لیے بہتر ہو“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کے جسم کی ہر چیز سڑ گل جاتی ہے، سوائے ایک ہڈی کے اور وہ ریڑھ کی ہڈی ہے، اور اسی سے قیامت کے دن انسان کی پیدائش ہو گی“۔
وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: «ليس من الإنسان شئ إلا يبلى إلا عظما واحدا»”انسان کی ہر چیز ایک ہڈی کے علاوہ بوسیدہ ہو جائے گی“ اور ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں: «إن في الإنسان عظما لا تأكله الأرض أبدا فيه يركب يوم القيامة، قالوا: أي عظم هو قال: عظم الذنب»”انسان میں ایک ایسی ہڈی ہے جسے زمین کبھی بھی نہیں کھائے گی، قیامت کے دن اسی میں دوبارہ اس کی تخلیق ہو گی، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول وہ کونسی ہڈی ہے؟ تو آپ نے کہا: وہ دم کی ہڈی ہے“ مستدرک علی الصحیحین اور مسند ابی یعلی میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: «قيل: يارسول الله! ما عجب الذنب؟ قال: مثل حبة خردل»”کہا گیا: اللہ کے رسول! دم کی ہڈی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: رائی کے دانے کے برابر“۔ «عجب»: ع کے فتحہ اور ج کے سکون کے ساتھ اور اس کو «عجم» بھی کہتے ہیں، ریڑھ کی ہڈی کی جڑ میں یہ ایک باریک ہڈی ہوتی ہے، یہ دم کی ہڈی کا سرا ہے، یہ چاروں طرف سے ریڑھ کی باریک والی ہڈی کا سرا ہے، ابن ابی الدنیا، ابوداود اور حاکم کے یہاں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں ہے کہ یہ رائی کے دانے کے مثل ہے، علامہ ابن الجوزی کہتے ہیں کہ ابن عقیل نے کہا: اللہ رب العزت کا اس میں کوئی راز ہے، جس کا علم صرف اسی کو ہے، اس لیے کہ جو ذات عدم سے وجود بخشے وہ کسی ایسی چیز کی محتاج نہیں ہے جس کو وہ نئی خلقت کی بنیاد بنائے، اس بات کا احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو فرشتوں کے لیے نشانی بنایا ہے کہ وہ ہر انسان کو اس کے جوہر کے ساتھ زندہ کرے، اور فرشتوں کو اس کا علم صرف اسی طریقے سے ہو گا کہ ہر شخص کی ہڈی باقی اور موجود ہو، تاکہ وہ اس بات کو جانے کہ روحوں کو ان کے اعیان میں ان اجزاء کے ذریعے سے لوٹایا جائے، اور حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ «ويبلى كل شئ من الإنسان»”انسان کی ہرچیز بوسیدہ ہو جائے گی“ تو اس میں احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد اس کا فنا ہو جانا ہے یعنی اس کے اجزاء کلی طور پر ختم ہو جائیں گے اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد اس کا پگھلنا اور تحلیل ہونا ہے، تو معہود صورت ختم ہو جائے گی اور وہ مٹی کی شکل میں ہو جائے گی، پھر اس کی دوبارہ ترکیب میں اپنی اصل کی طرف لوٹ آئے، بعض شراح حدیث کے خیال میں اس سے مراد اس کے بقا کا طویل ہونا ہے، نہ یہ کہ اصل میں وہ ہڈی فنا نہیں ہو گی، اس میں حکمت یہ ہے کہ یہ ہڈی انسان کی تخلیق کی بنیاد ہے، جو سب سے زیادہ سخت ہے، جیسے دیوار کی بنیاد اور جب زیادہ سخت ہو گی تو اس کو زیادہ بقائے دوام حاصل ہو گا، اور یہ قابل رد ہے اس لیے کہ یہ ظاہر کے خلاف ہے، اور اس پر کوئی دلیل نہیں ہے، اور علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیث عام ہے، اس سے مراد خصوصیت سے انبیاء ہیں، اس لیے کہ زمین ان کے جسم کو نہ کھائے گی، ابن عبدالبر نے ان کے ساتھ شہداء کو رکھا، اور قرطبی نے ثواب کے خواہاں موذن کو، قاضی عیاض کہتے ہیں کہ حدیث کا معنی یہ ہو گا کہ ہر آدمی کو مٹی کھا لے گی اور بہت سے اجسام جیسے انبیاء ہیں کو مٹی نہیں کھائے گی۔ حدیث میں «إلا عجب ذنبه» ہے یعنی ”انسان کے جسم میں اس کے دم کی ہڈی ہی بچے گی“ جمہور اس کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ دم کی ہڈی نہ بوسیدہ ہو گی، اور نہ اس سے مٹی کھائے گی، مزنی نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ «إلا» یہاں واو عطف کے معنی میں ہے، یعنی دم کی ہڈی بھی پرانی ہو جائے گی، اور اس معنی کو فراء اور اخفش نے ثابت کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ «واو» «إلا» کے معنی میں آتا ہے، مزنی کی اس شاذ اور منفرد رائے کی تردید حدیث میں وارد وہ صراحت ہے جو ہمام کی روایت میں ہے کہ زمین اس کو کبھی بھی نہ کھائے گی، اور اعرج کی روایت میں ہے: «منہ خلق» اس کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی میں سب سے پہلے اسی کی پیدائش ہوئی، اور اس کی معارض سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث: «إن أول ما خلق من آدم رأسه» نہیں ہے اس لیے کہ ان دونوں میں توفیق و تطبیق اس طرح سے ہو گی کہ یہ آدم علیہ السلام کے حق میں ہے، اور دم کی ہڈی کی تخلیق اولاد آدم میں پہلے ہے، یا سلمان رضی اللہ عنہ کے قول کا مقصد یہ ہو کہ آدم میں روح پھونکی گئی نہ کہ ان کے جسم کی تخلیق ہوئی۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباری ۸/۵۵۲-۵۵۳، حدیث نمبر۴۸۱۴)
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسحاق , حدثني يحيى بن معين , حدثنا هشام بن يوسف , عن عبد الله بن بحير , عن هانئ مولى عثمان , قال: كان عثمان بن عفان إذا وقف على قبر يبكي حتى يبل لحيته , فقيل له: تذكر الجنة والنار , ولا تبكي وتبكي من هذا , قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" إن القبر اول منازل الآخرة , فإن نجا منه فما بعده ايسر منه , وإن لم ينج منه فما بعده اشد منه" , قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما رايت منظرا قط إلا والقبر افظع منه". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق , حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ , حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَحِيرٍ , عَنْ هَانِئٍ مَوْلَى عُثْمَانَ , قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ يَبْكِي حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ , فَقِيلَ لَهُ: تَذْكُرُ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ , وَلَا تَبْكِي وَتَبْكِي مِنْ هَذَا , قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ , فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ , وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ" , قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَطُّ إِلَّا وَالْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ".
ہانی بربری مولیٰ عثمان کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو رونے لگتے یہاں تک کہ ان کی ڈاڑھی تر ہو جاتی، ان سے پوچھا گیا کہ آپ جنت اور جہنم کا ذکر کرتے ہیں تو نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر روتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، اگر وہ اس منزل پر نجات پا گیا تو اس کے بعد کی منزلیں آسان ہوں گی، اور اگر یہاں اس نے نجات نہ پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے سخت ہیں“، اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے کبھی قبر سے زیادہ ہولناک کوئی چیز نہیں دیکھی“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزھد 5 (2308)، (تحفة الأشراف: 9839)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/63) (حسن)»