عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کی موت کسی زمین میں لکھی ہوتی ہے تو ضرورت اس کو وہاں لے جاتی ہے، جب وہ اپنے آخری نقش قدم کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی روح قبض کر لیتا ہے، زمین قیامت کے دن کہے گی: اے رب! یہ تیری امانت ہے جو تو نے میرے سپرد کی تھی“۔
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف إسماعيل بن أبي خالد عنعن (تقدم:2618) وروى الترمذي (2146) عن رسول الله ﷺ: ((إذا قضى الله لعبد أن يموت بأرض جعل له إليها حاجة، أو قال: بها حاجة۔))وسند صحيح وقال الترمذي: ”هذا حديث صحيح“ وهو يغني عنه۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4263
اردو حاشہ: فوائدو مسائل:
(1) اللہ کا علم کامل اور اکمل ہے۔ اسے معلوم ہے کس شخص کی موت کہاں آنے کافیصلہ ہوچکا ہے۔ بندے کو معلوم نہیں ہے۔ ارشاد ہے: ﴿وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾(لقمان: 34: 31) ”کسی کومعلوم نہیں کہ وہ کس زمین میں مرےگا۔ اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے۔“
(2) انسان کی موت اپنے وقت مقرر پرآتی ہے۔ ظاہری طور پر کوئی سبب بن جاتا ہے۔ جسے ہم حادثہ قرار دے لیتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4263