(مرفوع) حدثنا يحيى بن خلف ابو سلمة , حدثنا عبد الاعلى , عن سعيد , عن قتادة , عن زرارة بن اوفى , عن سعد بن هشام , عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" من احب لقاء الله , احب الله لقاءه , ومن كره لقاء الله , كره الله لقاءه" , فقيل: يا رسول الله , كراهية لقاء الله في كراهية لقاء الموت , فكلنا يكره الموت , قال:" لا إنما ذاك عند موته , إذا بشر برحمة الله ومغفرته , احب لقاء الله , فاحب الله لقاءه , وإذا بشر بعذاب الله , كره لقاء الله , وكره الله لقاءه". (مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ أَبُو سَلَمَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى , عَنْ سَعِيدٍ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى , عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ , أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ , وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ , كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ" , فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , كَرَاهِيَةُ لِقَاءِ اللَّهِ فِي كَرَاهِيَةِ لِقَاءِ الْمَوْتِ , فَكُلُّنَا يَكْرَهُ الْمَوْتَ , قَالَ:" لَا إِنَّمَا ذَاكَ عِنْدَ مَوْتِهِ , إِذَا بُشِّرَ بِرَحْمَةِ اللَّهِ وَمَغْفِرَتِهِ , أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ , فَأَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ , وَإِذَا بُشِّرَ بِعَذَابِ اللَّهِ , كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ , وَكَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات پسند کرتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات ناپسند کرتا ہے“، آپ سے عرض کیا گیا: اللہ تعالیٰ سے ملنے کو برا جاننا یہ ہے کہ موت کو برا جانے، اور ہم میں سے ہر شخص موت کو برا جانتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ یہ موت کے وقت کا ذکر ہے، جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی مغفرت کی خوشخبری دی جاتی ہے، تو وہ اس سے ملنا پسند کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے، اور جب اس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی خبر دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے نہیں ملنا چاہتا“۔
من أحب لقاء الله أحب الله لقاءه ومن كره لقاء الله كره الله لقاءه فقلت يا نبي الله أكراهية الموت فكلنا نكره الموت فقال ليس كذلك ولكن المؤمن إذا بشر برحمة الله ورضوانه وجنته أحب لقاء الله فأحب الله لقاءه وإن الكافر إذا بشر بعذاب الله وسخطه كره لقاء الله وكر
من أحب لقاء الله أحب الله لقاءه ومن كره لقاء الله كره الله لقاءه قالت فقلت يا رسول الله كلنا نكره الموت قال ليس ذلك ولكن المؤمن إذا بشر برحمة الله ورضوانه وجنته أحب لقاء الله وأحب الله لقاءه وإن الكافر إذا بشر بعذاب الله وسخطه كره لقاء الله وكره الله لقاء
من أحب لقاء الله أحب الله لقاءه ومن كره لقاء الله كره الله لقاءه فقيل يا رسول الله كراهية لقاء الله في كراهية لقاء الموت فكلنا يكره الموت قال لا إنما ذاك عند موته إذا بشر برحمة الله ومغفرته أحب لقاء الله فأحب الله لقاءه وإذا بشر بعذاب الله كره لقاء الله و
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4264
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) فوت ہونے والے نیک آدمی کو فرشتے خوشخبری دیتے ہیں۔ چنانچہ اسے اللہ کے پاس جانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ تاکہ جلد از جلد وہ نعمتیں حاصل کرسکے جو اللہ نے پیارے بندوں کےلئے تیار کی ہیں۔
(2) فوت ہونے والے بُرے آدمی کو فرشتوں کی خوف ناک کیفیت سے پتہ چل جاتا ہے۔ کہ وہ سزا کا مستحق ہے۔ پھر فرشتے بھی اسے یہی خبر دیتے ہیں۔ تو اسے مزید یقین ہوجاتا ہے۔ اس لئے اس کو مرنے سے خوف آتا ہے۔ اور وہ اللہ کے پاس جانا نہیں چاہتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4264
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1067
´جو اللہ سے ملنا چاہتا ہے، اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ سے ملنا چاہتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے، اور جو اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔“ تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سبھی کو موت ناپسند ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”یہ مراد نہیں ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ مومن کو جب اللہ کی رحمت، اس کی خوشنودی اور اس کے جنت کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملنا چاہتا ہے اور اللہ اس سے ملنا چاہتا ہے، اور کافر کو جب اللہ کے عذاب اور اس کی غصے کی خبر دی جاتی ہے ت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1067]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: مطلب یہ ہے کہ جان نکلنے کے وقت اور موت کے فرشتوں کے آ جانے کے وقت آدمی میں اللہ سے ملنے کی جو چاہت ہوتی ہے وہ مراد ہے نہ کہ عام حالات میں کیونکہ عام حالات میں کوئی بھی مرنے کو پسند نہیں کرتا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1067
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6824
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو انسان اللہ کو ملنا پسند کرتا ہے۔اللہ اس کو ملناپسند فرماتا ہے اور جو اللہ کو ملنا ناپسند کرتا ہے، اللہ اس کو ملنا ناپسند کرتا ہے اور موت اللہ کی ملاقات سے پہلے ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6824]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: موت اللہ کی ملاقات کا پیش خیمہ اور دروازہ ہے اور ملاقات کا آغاز اس کے بعد ہوتا ہے، اس لیے موت کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی الگ چیز ہے، اس لیے موت کو ناپسند کرنا، اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرنا نہیں ہے، کیونکہ بعض دفعہ مومن انسان، دینی فتنہ و فساد میں مبتلا ہونے کے خطرہ سے موت سے طبعی طور پر ناپسند ہونے کے باوجود، آخرت کی نعمتوں کے حصول اور فتنہ دینی سے محفوظ رہنے کی خاطر موت کو پسند کرتا ہے اور بعض دفعہ اعمال صالحہ میں اضافہ کی امید اور گناہوں سے توبہ و استغفار کے سبب موت کو ناپسند کرتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6824
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6826
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"شخص اللہ سے ملنا پسندکرتا ہے،اللہ بھی اس سے ملنا پسند فرماتا اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، اللہ اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد شریح بن ہانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں چنانچہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوااورعرض کیا، اے اُم المومنین! میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سنی ہے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6826]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوا، بعض دفعہ انسان ایک حدیث کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے، یا اس کو حدیث کے بارے میں تذبذب لاحق ہو جاتا ہے تو اپنے ناقص علم کی بنیاد پر کسی حدیث کا انکار کر دینا، ایک مسلمان کا شیوہ نہیں ہے، اس کو دوسرے اہل علم سے رابطہ قائم کر کے، اس کا صحیح معنی و مفہوم سمجھنا چاہیے۔ اپنے آپ کو عقل کل کا مالک نہیں سمجھنا چاہیے۔